Monday, October 12, 2015

بسم اللہ الرحمٰن الرحیم ۔
سب سے پہلے مشیت کے انوار سے نقش روئے محمد ﷺ بنایا گیا
پھر اسی نقش سے لے کے تابانیاں بزم کون ومکاں کوسجایا گیا۔
آدم ؑ نے اللہ سے پوچھا کہ محمد ﷺکون ہیں؟ تو انہیں یہ جواب ملا کہ کہ محمد ﷺانکی اولاد سے ہی ہونگے اور اگر انکی تخلیق اور بعثت و رسالت مقصود نہ ہوتی تو یہ کائنات و انسان ، سلسلہ تقدیر و تدبیر ، گردش اجرام فلکی ، روشنی و اندھیرے کا الٹ پھیر اور کشمکش ابلیس و ابن آدم قصہ پارینہ رہتے ۔
خیمہ افلاک کا ایستادہ اسی نام ہے
نبض ہستی تپش آمادہ اسی نام سے ہے
محمد ﷺ وجہہ تخلیق کائنات تھے ۔اللہ نے اپنے حبیب کو نقش اول کیا اور تا ابد مقام اول عطا فرما دیا۔
انکی پیدائش حالت یتیمی میں ہوئی اور چھ سال کی عمر میں انکی والدہ بھی خالق حقیقی سے جا ملیں ۔
انہی یتیم و مسکینﷺ سے دنیا میں یتیموں اور بیواوں کے حقوق قائم کرنے تھے ، انہی اُمیﷺ سے جہان جہالت کی تاریکیوں کو نور علم سے روشن و منور کرنا تھا۔
والدہ ماجدہ کی رحلت کے بعد دادا عبدالمطلب اور چچا ابو طالب کے زیر سرپرستی رہے۔
چچا ابو طالب کی بکریاں چراتے تھے کہ اللہ نے انہیﷺ سے مویشی صفت بدووں کے ریوڑ کو صراط مستقیم پر لانا تھا ۔
محمد ﷺ کا بچپن کیا تھا گویا اللہ نے خاردار جھاڑیوں کے درمیان پھول پیدا فرما دیا تھا ۔ جہاں ماحول جھوٹ و زنا سے بھرا تھا وہاں محمد ﷺ صداقت کا مینار اور حیا کے پیکر تھے ، جہاں جوا اور شراب دن رات کی دل لگی تھی وہاں محمدﷺ غریبوں کی مدد کرنے والے ، بوڑھوں کا بوجھ اٹھانے والے تھے ۔ جس معاشرے میں اپنے سگے بھائی کو امانت دینا بے وقوفی خیال کیا جاتا تھا اس معاشرے میں محمد ﷺ امین کے لقب سے مشہور ہوئے ۔ جہاں سوائے باپ کے نام کے ہر بات جھوٹ بولنا فن سمجھا جاتا تھا وہیں پر محمد ﷺ صادق گردانے گئے۔جہاں ہاتھوں سے بنائے ہوئے اصنام کو خالق بتایا جاتا تھا اسی ماحول میں پروان چڑھنے والے محمد ﷺ بتوں کے سامنے نہ جاتے تھے ۔ انہوں نے ہمیشہ بت پرستی کو جہالت و نادانی ہی سمجھا۔
نبوی اخلاق شروع سے ہی اپنا آپ دکھلا رہے تھے ۔ اپنی شرافت و دیانت کی بنا پر قریش کی ایک مالدار خاتون خدیجہؓ نے آپکو نکاح کا پیغام بھجوایاجو آپ نے قبول فرما لیا ۔ ایک زمانہ انکے عدل کا معترف ہوا جب انہوں نے حجر اسود کو اپنی چادر پر رکھ کر تمام قبائل کے سرداروں سے چادر اٹھوائی اور خود اسے نصب کر کے عرب کو بڑی خونریزی سے بچا لیا۔ انکا بول محبت والا اور عادتیں تمیز و اخلاق سے لبریز ہوتیں۔ ہر مکی قریشی دیکھتا کہ روزانہ انکی تعریف کی لڑی میں اعلی اخلاق و کردار کے نئےدانے پروئے جاتے ۔ انکے پاس اپنی امانت رکھوانے کے بعد ہرکوئی سکون میں آ جاتا ۔
بے شک نبیﷺ کا باطن اور انکی روح انتہا سے پرے اور حدود سے لا تعلق حد تک شاندار تھی۔انکا ظاہری حسن و جمال تخیل سے ماورا حد تک حسین تھا۔ وہ رخ زمین پر آفتاب کو شرمسار کرتے پھرتے تھے۔انکے جمال کو حسن یوسف سے تشبیہ دینا سورج کو چراغ دکھانے کے مترادف ہے ۔ انسان کے بنائے ہوئے الفاظ نے ابھی تک اتنی جامعیت حاصل نہیں کی کہ انکے حسن و کردار کی ایک جھلک کا بھی حق ادا کر سکے ۔ آسمانی الفاظ مدثر ، مزمل ، شمس الضحی ،بدر الدجی، نور الہدی ، صدر العلی، سید المرسلین ، رحمتہ اللعالمین ، بشیر و نذیراور سراج منیر بھی محمدﷺکو بیان کرتے ہوئے تشنہ ہی رہتے ہیں ۔
تنہائی انسان میں تفکر کا مادہ پیدا کرتی ہے ۔ محمد ﷺ اکثر غار حرا میں تشریف لے جاتے اور وہاں سے بیت اللہ کا نظارہ کرتے۔ چالیس برس کی عمر میں جبرائیل امین ان پر پہلی وحی لے کر اترے ۔ اور اس عظیم ذات کے عظیم قران کی وہ آیتیں محمد ﷺ کے قلب اطہر پر نازل فرمائیں کہ اگرپہاڑ پر نازل کیں جاتیں تو وہ ریزہ ریزہ چورا چورا ہو جاتا ۔
اللہ نے لا ریب کامل دین کو دنیا میں پھیلانے اور مخلوق کا دربار الہی سے رابطہ جوڑنے کی زمہ داری محمد ﷺ پر ڈالی ۔ محمد ﷺ نے اپنے قریبی افراد کو دعوت اسلام دینے کے بعد عام اعلان نبوت فرمایا۔ کوہ صفا جو قریش مکہ کا مقام ِمنادی تھا، پر پہنچ کر سب کو پکارا۔ انہیں جمع کر کے ان کے سامنے اپنے آپ کو پیش کیا اور پوچھا کہ اے لوگو!!!
میں تمہارے ساتھ تمہارے درمیان رہا ہوں تم نے مجھے کیسا پایا؟
یہ لمحہ، مصطفوی جدوجہد کامرکزی نقطہ ثقل اور نازک ترین لمحہ تھا۔وہ قریشی اور عربی بدو کہ غیبت جن کا مشغلہ ہوا کرتا تھا،اگر اس لمحے ان میں سے کوئی شخص بھی محمد ﷺ کی چالیس سالہ زندگی میں ایک بھی غلطی ، کمی ،کوتاہی ، کجی ، دل آزاری ، بے ادبی ، بد اخلاقی یا فحش گوئی کا بتا سکتا تا تو یہ تحریک اپنی شان کھو دیتی ۔ اس مجمعے میں موجود ہر شخص نے بہت تخیل کے گھوڑے دوڑائے ، بہت سوچا ، بہت اپنے مغز ریشوں کو حرکت دی ، بہت اپنے ماضی کو ٹٹولا لیکن کوئی بھی محمد ﷺ کی چالیس سالہ زندگی میں ایک بھی عیب نہ ڈھونڈ پایا۔ محمد ﷺ کے اس سوال نے سب پر خاموشی طاری کر دی پھر محمد ﷺ نے اپنی صداقت کی گواہی پر تصدیق کے بعد انکے سامنے سچے دین کو پیش کیا۔ بڑی مدت سے فضائیں لا الہ الا اللہ کو سننے کے لئے تشنہ تھیں ۔ ہوائیں تو سیراب ہوئیں لیکن کچھ بد بخت دل ابھی بھی ایمان و ہدایت کے لئے مقفل تھے ۔ ابھی اللہ نے اپنے محبوب کو یہ قفل کھولنے کی ساری کنجیاں عطا نہ کی تھیں، ابھی تو قران کی چند ہی آیات اتری تھیں۔ آگے بہت سے انقلابات چشم فلک نے دیکھنے تھے۔
اس اعلان نبوت نے قریش مکہ کے رویوں کو یکسر بدل دیا۔ جن بوڑھوں کے کندھوں کا بوجھ محمد ﷺ اٹھاتے اب رسالت مآبﷺ کو ایذا رسانی ان ہی بوڑھوں کا ہدف ٹھرا ۔جو لب نبی ﷺ کو صادق وامین کہتے وہی اب دشنام طرازی پر اتر آئے۔ جو نگاہیں نبیﷺ کے احترام میں جھکتی تھیں اب وہی گھورنے لگیں تھیں۔ جن زبانوں پرپہلے تعریفیں تھیں وہی اب نوک خنجز بنی ہوئی تھیں۔ محمد ﷺکے استقلال کی سب سے بڑی آزمائش ان کی بیٹیاں تھیں جن کا نکاح اعلان نبوت کے بعد مشرکین نے منسوخ کر دیا تھا ۔اس پُر آزمائش دور میں جانثار دوست ابو بکر صدیقؓ ، چچا ابو طالب اور اہلیہ خدیجؓہ نے انکا بھرپور ساتھ دیا۔
چچا اور اہلیہ کی وفات کے بعد انکی پریشانیوں میں اضافہ ہوا اور قریش کی طرف سے سختیاں مزید بڑھ گئیں ۔ غرضیکہ نبوت کے بارہ سال بڑی کسمپرسی کی حالت میں گزرے۔ اسلام کی دعوت روکنے کا ہر حربہ آزمایا، واقعہ معراج پر مذاق اڑایا، شعب ابی طالب کے دو سال میں شقاوت قلبی کی نمائش جاری رکھی، ایذارسانی کی ، قریش اتنے احمق تھے کہ سلطان السلاطین کو سرداری کا لالچ دیتے ، بلال کے آقا کو مال کا لالچ دیتے، حوروں کی بشارت دینے والے کو عورتوں کا لالچ دیتے۔نہ وہ عمدہ اخلاق سے راہ راست پہ آئے ، نہ ہی چاند کو دو ٹکڑے ہوتے دیکھ کر انکی عقل جاگی ۔ہجرت پر مجبور کیا گیا طائف کے شہر میں لہو لہان ہو کر بھی خلق عظیم امت کے لئے ہدایت کی دعا مانگتے رہے۔اور کیا ہی نبیﷺ تھے جو اپنے پیروں پر جما خون صاف کرتے ہوئے بھی ہدایت کی دعا دیتے۔کیا ہی نبی تھے کہ جن سے مجنون کے الفاظ سنتے، انہی کی امانتیں رکھنا قبول کرتے۔ محمد ﷺکے کیا ہی ساتھی تھے جو خود پر ہر سختی برداشت کرتے اور نبیﷺ کو ایک کانٹا بھی لگتا تو مضطرب ہو جاتے ۔ ہر طرف سے، ہر قیمت پر کثرت قلت کو مٹانے کی طالب تھی ۔ نور خدا کفر کی حرکتوں پر خندہ زن تھا جو پھونکوں سے سراج منیر کو بجھانے کا خواہاں تھا۔ جیسے جیسے نبیﷺ کی محفل میں بلالوں ، فاروقوں ، ابوزروں اور ابودجانہ جیسے جانثاروں کا اضافہ ہوتا جاتا ویسے ویسے کفار مکہ کی ناک سے نکلتے دھویں میں بھی اضافہ نظر آتا۔ عرصہ حیات تنگ ہوا تو نبیﷺ نے ہجرت کے لئے رخت سفر باندھا اور مدینہ کی طرف رات کے اندھیرے میں چل نکلے ۔
خاتم النبیین ﷺ نے صدیق ؓ کو رفیق بنایا ۔ اور علی ؓ کو امین بنایا ۔ ہجرت کے سفر کے دوران بھی راہگزر پار کرتے ہوئے محمد ﷺنے انعام کی لالچ میں نکلے ہوئے سراقہ بن جعشم کو کسری کے کنگن عنایت کئے۔ سراقہ نے آخر تک اسے مزاق ہی سمجھا کہ بے سروسامانی کے عالم میں خوف کے مارے رات کو سفر کرنے والے محمد ﷺانکو عالمی طاقت کے کنگن کا مالک کیسے گردانتے ہیں ۔بعد میں وقت نے اسے سچ ثابت کر دیا اور کسری کے کنگن اسی کے حوالے کئے گئے۔
مدینہ میں پہنچ کر محمد ﷺ نے مواخات یعنی بھائی چارے کے نام سے نئی مثال قائم کی۔ نبی ﷺنے رشتہ جوڑنا سکھایا۔آپ ﷺ نے بھائی ہونے کے نئے پیمانے وضع کئے۔ یہ بھائی چارا" لا الہ "کی بنیاد پر بنا۔
انہوں نے جانوروں ، غلاموں اور ماتحتوں کے حقوق بتائے۔ انہوں نے خواتین کو پیر کی جوتی سے اٹھا کر عفت و عظمت کا استعارہ بنایا۔ گری پڑی انسانیت ، جو درہم و دینار سے زیادہ اہمیت نہیں رکھتی تھی، محمد ﷺ نے حقیقی معنوں میں اسے اس قابل بنایا کہ اشرف المخلوقت کا لفظ اس پر جچ سکا۔
انہوں نے یتیموں پر شفقت کرنا، بیواوں کی مدد کرنا، بے کسوں کی داد رسی کرنا، بیوی کو عزت دینا، اولاد کو محبت دینا ، انسان کی تربیت کرنااور آہ گرم و سرد کو پہچان لینا سکھلایا۔انسان کو مقام انسانیت تک لانا ہی انکی شریعت کا اصل ہوا۔اولاد آدم پر احسان نبوی جاری تھے کہ زمانے کے فرعونوں نے طبل جنگ بجانے پر آمادگی ظاہر کی۔مشرکین مکہ اپنی افرادی طاقت اور اسلحے کی فراوانی پر اتراتے ہوئے میدان بدر میں اترے ۔ ادھر رسول اللہ خاصہ بشریت یعنی صحابہ کی جماعت کو لے کر حق و باطل کی پہلی بالمشافہ جنگ میں پہنچے ۔ جنگ کیا تھی اک بے جوڑ مقابلہ تھا۔ ایک ہزارمرے ہوؤں کے مقابل تین سو تیرہ زندہ صحابہ تھے۔بازوؤں کی کی قوت اور تیر و نشتر کی نمائش سے کاروان حق کب تھما تھا۔بھائی بھائی کے سامنے تھا، چچا بھتیجا سامنے تھے ، ماموں بھانجا سامنےتھے۔ دوست یار عزیز سب سامنے ہو کر بھی اجنبی تھے۔نہ ہی ماضی کی دوستی آڑے آئی نہ ہی شِیر مادر کیونکہ صحابہ کے رشتوں ناطوں بندھنوں اور تمام تعلقات کی بنیاد" لا الہ الا اللہ" پر تھی ۔
نتیجہ جنگ کا یہ نکلا کہ قریش مکہ کا غرور و تکبر ان کے چوٹی کے سرداروں کی آنکھوں سے خون بن کر بہا اور بدر کی زمیں میں جذب ہو گیا۔
معاز و معوز کہ جن سے انکے والد نے ابھی تک فصل نہیں کٹوائی تھی وہ حب نبیﷺمیں قریشی سرداروں کے سر کاٹ رہے تھے ۔
نبی کے حکم پر صحابہؓ نے بدر کے قیدیوں سے عجیب انتقام یہ لیا کہ بغیر کسی جبر کے فقط اخلاق کی تلوار سے ان کے اندر کا شیطان مار ڈالا۔محمد ﷺ نے یہاں قیدیوں کے حقوق اور تعلیم کی ضرورت دونوں بتلا دیں۔ احد کے میدان میں پھر حق و باطل نبرد آزما ہوئے ۔ حق پھر بھی قائم رہا، نہ کمزور ہوا، نہ جھکا، نہ جھجھکا ۔ مجاہد نبیﷺ خود تیر کھینچتے ، تلوار چلاتے۔ اور مجاہد نبیﷺ کے مجاہد صحابہ ؓ انکی طرف آنے والے ہر تیر کو اپنے سینے پر اعزاز سمجھ کر سجاتے اور جہاد فی سبیل اللہ کی نئی جہتیں سمجھاتے اور نئی حدیں اپنے خون سے متعین کرتے۔ احد کے بعد کئی لشکر (احزاب) مدینہ پر چڑھ آئے۔خندق کے اندر مدینہ شہر کا دفاع کرتے ہوئے بیک وقت اندرونی اور بیرونی لشکر سے جنگ کرتے ہوئے ابن خلیل اللہ ﷺ اور صحابہؓ نے استقلال کی روشن مثال قائم کی ۔ اللہ کے نبی غازی رہے اور لشکر کفار پھر پسپا ہوا۔حب محمد ﷺاور شوق شہادت میں صحابہ نے خیبر کے قلعوں کے دروازے اکھاڑ دیئے۔جو لکڑی ممبر بننے کے قابل نہیں ہوتی اسے سولی بنا دیا جاتا ۔ نبیﷺ کے معجزات ساتھ ساتھ نظر آتے۔ ماضی میں جس لعاب سے زم زم کا چشمہ ابل پڑاتھا اسی لعاب سے چشم علی ؓ شفا پا گئی۔کبھی ماضی میں نبیﷺ کے ہاتھ لگنے سے بکری کے تھنوں میں دودھ آ گیا تو کبھی انکی انگلیوں کے چھونے سے ایک پیالہ پانی تمام لشکر کو کافی ہو گیا۔پھر وہ دن بھی آیا کہ جب محمد ﷺمکہ میں فاتح کی حیثیت سے داخل ہوئے ۔ قریش مکہ کے چہروں پر خوف امڈ آیا۔ مارے خوف کے خون یوں خشک ہوا گویا کاٹو تو خون نہ نکلے۔ والدین بچوں کو یوں دیکھتے گویا آخری بار ہی دیکھنا ہے ۔ کہیں کونے میں بیٹھا بوڑھا کئی سال پیچھے پہنچا اپنے ظلم یاد کر رہا تھا۔ بلالؓ کو تپتی ریت پر لٹا کر کمر پر پتھر کن لوگوں نے رکھے ؟ سمیہؓ کے ساتھ کیا ہوا ؟ نبیﷺ کو پتھر کس نے مارے؟مجنون کس نے کہا؟ بیت اللہ میں نبی ﷺ کی کمر پر اوجھڑی کس نے ڈالی؟
ابھی قریشی انہی یادوں کو تازہ کر رہے تھے اور اپنی موت کا ، اپنے گھروں کے جلائے جانے کا، اپنے بچوں کے زبح ہونے کا اور اپنی لاشوں کے مثلہ ہونے کا انتظار کر رہے تھے کہ انکی خاموشی کو ساقی کوثرﷺ کے ایک اعلان نے توڑا۔ سارے مکے میں منادی کرا دی گئی کہ آج عام معافی کا دن ہے۔
محمد ﷺنے کیا کیا معاف کر دیا؟ ماضی کے تمام ظلم و ستم معاف۔جبر معاف۔ شعب ابی طالب معاف۔ دشنام طرازی معاف۔احد میں حمزہؓ کا خون معاف۔ نبی کے دندان مبارک شہید کرنا معاف۔ احزاب میں یہودیوں کے ساتھ کیا گٹھ جوڑ معاف غرض سب کچھ معاف۔شافع محشر ﷺ نے امت کو اپنے شفاعت کرنے کا ایک نمونہ ،محبت کی صورت میں دنیا میں ہی دکھا دیا۔
ایک بار پھر حق غالب آ یا اور باطل مٹا ۔ بے شک باطل ہے ہی مٹ جانے والا۔
اللہ اکبر کی صدا بلند ہوتی اور بیت اللہ سے مخلوق خداوندوں کے پیکر خاک میں خاک ہوتے جاتے۔بیت اللہ نے اذان بلالیؓ سے اپنی فضا کو معطر پایا ۔نبی ﷺ کے قدموں سے اپنے در و دیوار منور پائے۔ صحابہؓ کے طواف سے اپنی عظمت رفتہ واپس بحال دیکھی۔ قریش مکہ جوق در جوق آتے جاتے اور پیمانہ ایمان، بدست سرور کائنات ﷺ لے کر مشرف بہ اسلام ہوتے فتح مکہ کے بعد دین اسلام تیزی سے پھیلنے لگا ، پہلے حج کے موقع پر ایک لاکھ پچیس ہزار افراد نے نبی کی معیت میں حج ادا کیا یہ نبیﷺ کی تیئس سالہ محنت کا پھل تھا ۔ دین اسلام رب کی مہربانیوں کا مظہر ، نبی کی محنت اور شہیدوں کے خون کی امانت ہے ۔ آخری حج کے موقع پر نبیﷺ نے خطبے میں دین کا خلاصہ پیش کیا۔ تمام انسانوں کو آدمؑ کی اولاد اور برابر حقوق و فرائض والا بتایا ۔ آپ ﷺ نے جاہلیت کےبنائے ہوئے اعلی و ادنی کے معیار ختم کر کے مساوات کا درس دیا۔رنگ و نسب کے غبار کو مرغ حرم کی بلندی میں حائل رکاوٹ بتلایا۔انہوں نے انسانیت کو" لا الہ کی دعوت دے کر" خاک سے اٹھایا ، "طبل جنگ سے" جسم انسانی پر لگی خاک کو جھاڑا، "کردار سازی کر کے "اسکو کھڑا کیا اور "ایمان کے جوہر سے" اسے اوج ثریا پر پہنچایا ۔
انہوں نے اپنی ذات پر دوسری بار گواہی تمام صحابہ سے گواہی لی کہ کیا دین ان تک پہنچا دیا گیا۔ صحابہ نے جواب دیا آپﷺ نے پہنچا دیا اور حق ادا کر دیا۔
نبی ﷺ نے اپنا مقصد رسالت پورا کر دیا ۔ اور اس جہان فانی کو چھوڑ کر جہان ابدی کی طرف کوچ فرمایا۔
یہ انکی تربیت کا ہی شہکار تھا کہ ان عربیوں کو ، جو زمین کے ایک ٹکڑے پر صدیوں جھگڑتے تھے ، انہیں عالمگیریت کے درجے پر پہنچایا ۔ بکرو تغلب کے قبیلوں جیسی لڑائیاں لڑنے والوں کو روم و فارس کی حکومت ملی ۔ جب یونان کا دیا ٹمٹمارہا تھا تو دنیائے علم کے چراغ انہی صحرا نشین امیوں نے اپنی شمعوں سے جلائے ۔وہ جو خاکی فرش اور لاجوردی شامیانے کے حامل ہو کر بھی فخر جہاں تھے۔
محمد۔۔انہی کے سر لولاک کا تاج ہے ، انہی کو فقط فخر معراج ہے ،وہی جو ایک کمان کے فاصلے تک پہنچے ، وہی کہ دنیا میں امت کی فکر میں اپنی دونوں شمعیں جوئے خون سے فروزاں کئے رہتے، وہی جو یوم قیامت یارب امتی، یارب امتی پکاریں گے ۔ان پر لاکھوں کروڑوں درود و سلام کہ جن کے ہاتھوں میں جام کوثر ہو گا، کہ جن کے پاس جنت کی کنجی ہو گی ، کہ جو مقام محمود پر فائز ہونگے ، کہ جوشفاعت کے لئے اپنی اور تمام انبیا کی امتوں کا واحد سہارا ہونگے، کہ جنکے ہاتھ اسلام کا جھنڈا ہو گا۔ ۔
الغرض ۔ انکی شریعت کا حکم مانع ہے ورنہ وہ بہت کچھ ہیں۔چھتیس الفاظ کے ساتھ آقائے دو جہاں کی عظمت بیان کرپانا خام خیالی نہیں تو اور کیا ہے۔۔
اللہ رب العزت سے دعا ہے کہ ہمیں اپنے نبی کے صدقے ویسا بنا دیں جیسا ہمارے نبی ہمیں دیکھنا پسند کریں۔ اور بے شک ہمارے نبی کی پسند کسی صورت کم نہ ہو گی ۔
آمین۔

ثاقب الرحمن کراچی ۔ 
فیس بک 8اکتوبر تا 11 اکتوبر چلنے والے عالمی مضمون نگاری بہ عنوان "سیرت النبی" کے لئے لکھا گیا مضمون۔

Tuesday, September 01, 2015

کمینہ دوست ۔۔

بلال میرا پکا دوست تھا۔جتنا وہ پکا دوست تھا اتنا ہی اس میں کمینہ پن بھی بھرا تھا۔بچپن میں ہم چھوٹے غباروں کو پانی سے بھر دیتے اور گھات لگا کر محلے والوں پر پھینک دیتے جس سے غبارہ پھٹ جاتا اور ہم اپنی چپل بغل میں دبا کر یوں بھاگتے کہ آندھیاں شرمندہ ہو جاتیں۔۔۔
یوں سمجھئے کہ بلال دوست نہیں تنقید کے پانی سے بھرا ایک غبارہ تھا جو ہر وقت گھات میں ہوتا تھا۔پھٹنے کو تیار۔۔۔
میں اپنے دیگر "شریف" دوستوں کے ساتھ بیٹھا عقل کی گتھیاں سلجھانے میں مشغول تھا۔ کبھی شیخ سعدی پر بات ہوتی کبھی
رومی زیر دام آتے ، نیوٹن اور آئن سٹائن تو گویا ساتھ ہی بیٹھے رہتے ۔۔ایسے پر علم اور پر رونق ماحول میں بروں کی شامت سے بلال کہیں سے ٹپک پڑا (نازل ہوا) ۔
اوئے بغیرت تو یہاں انڈے دے رہا ہے وہاں تیری امی محلے کے لڑکوں سے دودھ دہی ، روٹی منگوا رہی ہے
شرم تو تجھ میں زرابھی نہیں ۔۔ کوئی شرم ہوتی ہے کوئی حیاء ہوتی ہے ۔۔ اس سے پہلے کہ میرا جوتا اسکے سر کو چومتاوہ فوراََ
آندھی ہو گیا۔ دہی تو محلے والا لے ہی آیا تھا، ادھر بلال نے عزت کی دہی کو لسی بنا دیا تھا۔۔
یہ کوئی واحد مثال نہ تھی رنگ میں بھنگ ڈالنا اسکی طبیعت میں شامل تھا۔۔
چند دن بعد جمعرات والے دن میں چھت سے پتنگ اڑاتے ہوئے گر گیا۔۔
جمعرات والے دن اکثر گھروں میں کپڑے دھوئے جاتے ہیں جو بعد میں چھت پر سکھائے جاتے ہیں ۔
مجھے اتنا یاد ہے کہ میں چھت پر کھڑا تھانظر کچھ ڈگمگائی تو ساتھ ہی قدم بھی ڈگمگا گئے۔۔ لرزش لغزش ہو گئی اور اسکے بعد چراغوں میں روشنی ہی نہ رہی ۔۔ آنکھ کھلی تو پتا چلا کہ ہسپتال میں موجود ہوں ۔دائیں طرف جوس کے کچھ ڈبے دیکھ کر سارا غم نکل گیا اور دل باغ باغ ہو گیا۔ بائیں طرف کا منظر کچھ اور ہی تھا۔۔۔
بلال اس طرف بنچ پر بیٹھا تھا اور اسکا سر میرے سینے کے برابر ہی بستر پر پڑا تھا ۔ ساتھ ہی اسکےسسکی لینے کی آواز بھی آ رہی تھی ۔۔ نہ جانے کب سے بیٹھا تھا۔ کب سے رو رہا تھا۔۔ کیا یہ وہی بلال تھا۔۔
وہ لمحات بھی گزر گئے ، آج تک بلال نہیں جانتاکہ میں نے اسکی سسکیاں سن لی تھیں ۔۔
اگلے دن سب صحیح ہو چکا تھا صرف 7 ٹانکے آئے تھے ۔ میں نے بلال سے اپنے "شریف" دوستوں کی بابت دریافت کیا
کہنے لگا۔۔ "اور گھس اپنے ان چمچوں میں ۔۔ کمینہ کوئی نہیں آیا۔۔ سارے بغیرت ہیں ۔۔تجھے ہی بڑا شوق ہے انکے ساتھ پیچا لڑانے کا۔۔ کتے سارے کے سارے"
اور میں بیٹھا مسکرا رہا تھا۔ ۔آج پہلی بار اسکے اس مزاج پر پیار آ رہا تھا۔۔ لیکن وہ بدلا بالکل بھی نہیں تھا
وہ تو شروع سے ہی ایسا تھا۔۔۔
 
ایک دفعہ کا ذکر ہے کہ ایک گاوں میں نیا شخص آیا اور اس نے اعلان کروایا کہ وہ دیہاتیوں سے ایک بندر 10 روپے میں خریدے گا۔ اس گاوں کے اردگرد بہت زیادہ بندر تھے ، سو دیہاتی بہت خوش ہوئے ، انہوں نے جال لگا کر ، کیلے رسی سے باندھ کر اور دیگر کئی طریقوں سے بندر پکڑنا شروع کئے
اس آدمی نے ایک ہزار بندر 10روپے میں خریدے ، اب بندروں کی تعداد کافی کم ہو چکی تھی ، چند ایک بندر باقی تھے جنہیں پکڑنا مشکل ہو گیا تھا ۔ یوں سمجھیں اندھا دھند فائرنگ والا معاملہ ختم ہو چکا اور ٹارگٹڈ آپریشن کی نوبت آ گئی تھی 
اس نے اعلان کیا کہ اب وہ بندر 20 روپے میں خریدے گا ، اس سے دیہاتیوں میں نیا جزبہ نیا ولولہ پیدا ہوا اور ایک دفعہ پھر انہوں نے پوری قوت سے بندر پکڑنا شروع کئے
چند دن بعد بندر اکا دکا ہی نظر آتے اور اس نئے آئے ہوئے تاجر کے ایک بڑے پنجرے میں تقریبا 1300 بندر جمع ہو چکے تھے ۔
جب تاجر نے بندروں کی خریداری میں سستی دیکھی تو اس نے فی بندر قیمت پہلے 25 روپے مقرر کی اور پھر اگلے دن قیمت 50 روپے کر دی۔ اس قیمت میں اس نے صرف 9 بندر خریدے ۔۔
اب جو بندر بھی نگاہ انسانی کی زد میں آتا ، داخل زندان کر دیا جاتا
اسکے بعد وہ کام کے سلسلے میں کسی دور دراز شہر چلا گیا اور اسکا اسسٹنٹ کام سنبھالنے لگا
اسکی غیر موجودگی میں اسکے اسسٹنٹ نے دیہاتیوں کو جمع کر کے کہا کہ :
(اے میرے عزیز دوستوں )اس بڑے پنجرے میں تقریبا 1450 جانور ہیں جو استاد نے جمع کئے ہیں۔ میں ایسا کرتا ہوں کہ تم سب کو یہ سارے 35 روپے فی بندر کے حساب سے بیچ دیتا ہوں ، جب ماسٹر آئے تو تم اسے یہ بندر 50روپے میں بیچ دینا۔
دیہاتی بہت خوش ہوئے اور انہوں نے اپنی ساری جمع پونجی خرچ کر کے بندر خرید لئے
اسکے بعد انہوں نے نہ کہیں تاجر کو دیکھا نہ ہی اسکے اسسٹنٹ کو ، بس ہر جگہ بندر ہی بندر تھے
اسے کہتے ہیں اسٹاک مارکیٹ  
صلاح الدین کی عمر پانچ سال ہے، اس سے چھوٹے لڑکے نے اسے لافہ مارا ، وہ روتے روتے چپ ہو گیا اس نے جوابی تھپڑ نہ ماراـ
وہ لڑائی جھگڑے سے دور بھاگتا ہے ، اسکے دوستوں کے مطابق وہ انتہائی ڈرپوک واقع ہوا ہے، مکھی بھی مرے تو اسکا دل زوروں دھڑکے ہے،
۔
اب
صلاح الدین کی عمر دس سال ہے اسے ماسٹر نے بہت مارا لیکن وہ مسکراتا رہا ، اس کی موٹی چمڑی پر کچھ اثر ہی نہیں ہوتا ، ماسٹر مار مار کے تھک گیا، ماسٹر نے غصہ میں اسے ماں کی گالی دی اور بالآخر پوچھا "تمہیں درد نہیں ہوتا" اس نے جواب نہ دیا اور اپنی پیٹھ دکھائی جس پر جگہ جگہ مار کے نشان تھے
اور کہنے لگا "پہلےمیرا ابامیری ماں کو بہت مارتا تھا اب میں بیچ میں آجاتا ہوں"
۔
آگے
آج پندرہ سالہ صلاح الدین اپنے پڑوس میں رہنے والے بتیس سالہ آدمی کو چاقو سے زخمی کر کے بھاگ گیا، عینی شاہدین کے مطابق غلطی اس آدمی کی تھی ،
اس نے صلاح الدین کو باپ کے نشئی ہونے کا طعنہ دیا تھا ۔
۔
کچھ مدت بعد
آج اخبار کے ایک کونے میں خبر چھپی کہ ایک بیس سالہ لڑکے نے اپنے باپ کو مبینہ طور پر قتل کر دیا ،
اسکا نام صلاح الدین بتایا گیا ہے،
اس خبر پر تبصرہ کچھ یوں تھا : آج یوم انسانیت پر اپنے سگے باپ کا قتل سمجھ سے بالاتر ہے ، بہت نا خلف اولاد تھی
۔
بالآخر
گینگ وار اور اغوا و ڈکیتی کی کئی وارداتوں میں ملوث صلاح الدین عرف بابا بھائی آج پولیس مقابلے میں مارا گیا یہ شخص ہیروئن کے تین بڑے سمگلروں اور پرائمری سکول کے دو اساتذہ کا قاتل بھی تھا
اور سپاری لے کر انکا قتل کر رہا تھا.....
۔
اس سے نتیجہ یہ اخذ ہوتا ہے کہ :
ہم اپنے شیطان خود بناتے ہیں ، اس وقت جب ہمیں پتا بھی نہیں ہوتا
اور جب ہم جان لیتے ہیں تب تک ہماری غلطی کئی چراغ گل کر چکی ہوتی ہے
آج کل کی بیویاں خاوند کو اس طرح بلاتی ہیں جیسے نکے بھائی یا بیٹے کو- اتنا بے تکلفانہ انداز کہ انجان بندہ سمجھ ہی نہیں پاتا کہ مخاطب شخص میاں ہے یا کچھ اور -
ایک خاتون بولیں میں اس "ایاز" سے بہت تنگ ہوں. پریشان کر رکھا ہے اس نے- اتنا گند ڈالتا ہے کہ کمرے کا حشر کر دیتا ہے-
ہم ہمدردی سے بولے" بس جی آج کل کی اولاد ہے ہی نکمی" -
خاتون بگڑ کر بولیں "ہائے دماغ ٹھیک ہے۔۔۔ ایاز، اولاد نہیں میری اولاد کے ابا ہیں"-
آپ ہی بتاو اب اس میں ہمارا کیاقصور ہم کو جو لگا,سو کہہ دیا-
آج کل میاں ،بیوی انتہائے محبت کا اظہار کرتے ہوئے بات چیت بھی ایسے کرتے ہیں کہ اچھا خاصا بندہ دھوکا کھا جائے ۔ معلوم ہی نہیں ہوتا کہ لاڈ بچوں سے ہو رہا کہ آپس میں-
مائی بےبی، مائی مونا ,مائی سوئٹو، شونو مونو -
ایک دفعہ شادی پرکھانے کے دوران ایک فیملی کی طرف میری کمر تھی ۔ ان میں سے ایک صاحب کہنے لگے
"بےبی تم کھانا کھاو مجھے پریشان نہ کرو "
میں نےپیچھے دیکھ کر ازراہ ہمدری کہا بھائی آپ کھانا کھالیں " بےبی "کو میں گود میں پکڑ لیتا ہوں-
بس ایک مکا پڑا۔ ۔ اس کے بعد چراغوں میں روشنی نہ رہی ۔
جب روشنی آئی تومعلوم ہوا کہ ان حضرت کی شادی ہفتہ پہلے ہوئی تھی-
آج بھی سوچتا ہوں کہ وہ بے بی کون تھیں ؟؟
تم کون!!!!!
تم نظر رکھنے والے ۔۔۔تم پرکھنے والے ۔۔تم فیصلہ صادر کرنے والے ۔۔تم میزان تھامے ہوئے میرے منہ سے نکلتے الفاظ کو تولنے والے ۔۔۔
تم میرے قدموں کی سیدھ کو ورنیئر کلیپر لے کر جانچنے والے ۔۔۔
ہاں تم ہی تو تھے!!!!
جب میری انگلیاں ستار پر رقص کر رہیں تھیں اور تاروں پر مضراب سے دھنیں پیدا ہو رہیں تھیں تو تم آنکھوں کو آدھا بند کئے محظوظ ہو رہے تھے
تم اس میٹھی موسیقی کی بہتی لہروں پر تیرتے رہتے اور بہت مسرور ہو کر چند پل کے لئے ڈوب بھی جاتے
تم بولے کچھ نہیں لیکن تمہاری زات کا زرہ زرہ" واہ۔۔ واہ" کرتا رہا ، تمہاری انگلیاں ہر بدلتی دھن کے ساتھ رانوں پر شرمندہ شرمندہ ضربیں لگاتیں۔
پھر !!!!
پھر تمہاری آنکھیں مجھے دیکھنے کو بیتاب ہوئیں ۔۔ تمہارے دل میں ملاقات کی آرزو نے جنم لیا اور تمہارے شوق کی گہرائی نے اس آرزو کی پرورش کی ۔
پھر وہ گھڑی بھی آئی !!!!!!
تم نے ہمت پکڑی اور کچھ تمہاری قسمت نے تمہارا ساتھ دیا اور تم نے نظر اٹھا کر مجھے دیکھا ۔۔۔
لیکن یہ کیا!!!!!
تم نے تو میرے چہرے پر داڑھی دیکھ لی ۔۔ اس کے بعد تمہاری فکر کا دوسرا دور شروع ہوا
تمہیں لگا کہ میں نے ستار چھو کر ظلم عظیم کیا ہے ، تم نے یہ بھی کہا کہ تمہیں مجھ سے یہ امید نہ تھی
میں نے یہ بھی تم سے سنا کہ میرا حلیہ میرے ہنر سے میل نہیں کھاتا ۔۔ نہ جانے کیوں چند ساعتوں میں تمہاری نظر مجھے گنہگار کر گئی ۔
سر پر ٹوپی رکھ کر کلاسیقی موسیقی کی دھنوں کو اپنا شوق بنانے کا اتنا بڑا انعام مجھے تم سے ملا ۔
تمہیں جھٹکا لگا جب میں نے یہ بتایا کہ میں رقص کا شیدائی ہوں ۔
رقص کا شیدائی !!!!
اسی رقص کا جس میں گھومنا ، پھر رکنا ، بیٹھنا ، پھر بازو پھیلا کر سمیٹ لینا ، آنچل لہرا کر اپنے تن سے لپیٹ لینا پھر ناز و ادا سے کھڑے ہو کر گھوم جانا ہوتا ہے
جب پیروں میں پائل ہوتی ہے کھنک کھنک کھن ۔۔ جب آنکھوں میں کاجل ہوتا ہے پتلی سلائی اور سلیقہ سے سے لگا غلاف کعبہ حیسا کالا کاجل ۔۔
تھوڑی پر تل ہوتا ہے کچھ ابھرا ہوا اور سبز رنگ کا مصنوعی تل ۔۔
اور جب ماتھے کا جھومر پہلے تو مانگ پر بیٹھا ہو اور دوران رقص گھومتے وقت بائیں جانب سرک جائے ۔۔
زرا سمجھاو تو سہی !!!!!!
تم نے کیوں مجھے فریم میں بند تصویر سمجھا ۔۔ کیوں تم نے مجھے پاک ہی سہی، لیکن شیشے میں بند ہونٹ کو ہونٹ سے جوڑے مدام آنکھیں کھولے ایک ہی نقطے کو دیکتے ہوئے مجسمے کی طرح سمجھا .
اور جب تم نے مجھے حقیقی دنیا میں ایسا پایا کہ میرے لباس پر کہیں کہیں دھول مٹی کے نشان ، میری کمر پسینے سے تر اور میرا ایک جوتا کیچڑ سے گندا تھا تو تم نے مجھے بد زوقی کا طعنہ دیا ۔۔
تمہارا گمان مجھ پر موسیقار کا تھا لیکن میری پیشانی پر کالا نشان تمہیں منافقت کا دھبہ لگا
جاو میاں جاو۔۔۔۔مجھے نیک نہ سمجھو ۔۔۔۔ کہ نیک بننا گنہگار ہونے اور منافق ہونے کا طعنہ سننے کے سوا کچھ نہیں ۔
میں نفسیاتی مریض ہونے سے زیادہ" پکا گنہگار" رہنا پسند کروں گا۔
یہ سنتے جانا !!!!
جب تمہیں موقع ملے ۔۔ جب کبھی فراغت کے چند لمحات نصیب ہوں، جب دل فکر پر مائل ہو تو سوچنا ۔
ہاں تم سوچنا کہ حسن پرست فطرت کا خالق پھولوں میں رنگ کیوں بھرتا ہے ۔
خوش بو پسندی کاشوق سرشت میں رکھنے والا رب گلاب و چنبیلی کو معطر کیوں بناتا ہے رات کی رانی کیوں اس کے امر سے اتنی پر کشش ہو جاتی ہے کہ انسان کے قدم خود بخود اسکی طرف بڑھنے لگتے ہیں ۔
کیوں وہ خوش آوازی کے رسیا کو صبح سویرے پرندوں کے نغمے سناتا ہے ، کیوں جھرنوں سے بہتے پانی میں اور سمندر کے ساحل پر موجوں میں "لے" پیدا کرتا ہے ۔۔
تم کبھی سوچنا ۔۔۔ شائد تمہیں اندازہ ہو جائے کہ میں گنہگار نہیں ۔۔۔ بس مجبور ہوں ۔۔۔ 

Thursday, July 16, 2015



افسانہ ۔۔۔ بلبل

بڑے ماموں سب سے جدا تھے ۔۔ وہ الگ کمرے میں بیٹھے ہمیشہ پڑھتے رہتے تھے ۔ انہیں پڑھنے سے بہت لگاؤ تھا۔
انکے اس مطالعے کے شوق کی بناء پروہ ہمیشہ اول آتے تھے ۔ اسلامیہ کالج پشاور میں اعلی پوزیشن حاصل کرنے پر انہیں حکومت کی طرف سے وظیفہ سے نوازا گیا اورانہیں اعلی تعلیم کے حصول کے لئے برطانیہ بھیجنے کی پیشکش کی گئی جسے انہوں نے قبول کر لیا۔۔ رضوان سے انکو خاص لگاؤ تھا۔۔ وہ جب چھوٹا تھا تو بڑے ماموں اسے گود میں بٹھا کر گھنٹوں اس سے باتیں کیا کرتے ۔۔ اسکی بچگانی موشگافیوں اور احمقانہ سوالوں پر مسکراتے ۔۔ رضوان طوئے اور ظوئے ناک میں کہتا تھا
اور اسکی یہ ادا ماموں کو بہت بھاتی تھی۔۔
ماموں برطانیہ کے لئے عازم سفر ہوئے تو اپنے ساتھ رضوان کی یادیں ہی لے جا سکے ۔
دنیا کے بکھیڑوں میں پڑے ہوؤں کو مشکل سے اپنا آپ یاد آتا ہے ۔ لیکن ماموں کو پردیس کی رنگینیوں میں اپنی مٹی کی خنکی، اپنے کھیت کھلیانوں کی سوندھی خوشبو ۔۔ اپنے یاروں دوستوں کی سنگت کے خوشنما مناظر اکثر یادآتے تھے ، انہی میں کبھی کبھار رضوان بھی یاد آ جاتا تھا اور ماموں اپنے ہونٹوں پر ہلکا تبسم پھیلا کر زمیں کو دیکھنے لگتے۔۔
دو سال بعد ماموں کی واپسی ہوئی۔۔ ائیرپورٹ پر خاصہ رش تھا۔ ماموں کو دیکھتے ہی ائیر پورٹ پر موجود ایک جم غفیر نے "آ گئے ..آگئے" کا نعرہ لگایا اورانکے باہر آتے ہی انتظامیہ پر یہ راز کھلا کہ آدھے سے زیادہ عوام صرف ایک شخص کو لینے آئی تھی، ماموں چلے تو یہ بارات بھی چل پڑی ۔۔
اگلے دن ماموں نے سب میں تحفے تحائف تقسیم کئے۔ سب کے چہروں پر خوشی تھی۔
رضوان کو بھی ایک ڈبہ ملا تھا۔ جس میں ایک بلبل موجود تھی جو چابی سے چلتی تھی۔ اسکو چابی دینے سے وہ گلابی مائل بھورے ٹانگوں سے اچھل اچھل کر چلتی تھی۔ رضوان کو یہ تحفہ بہت پسند آیا ۔ وہ سارا دن اس سے کھیلتا رہا۔
جب وہ اپنے گھر لوٹا تو اسکے ہاتھ میں یہ جاندار کا مجسمہ دیکھ کر دادی نے کافی غصہ کیا ۔
"ھٰذیٰ حرام’‘۔۔زی روح کا مجسمہ حرام ہے ۔۔یہ ولایتی لوگ تو ایمان چھوڑ ہی جاتے ہیں ۔ اس سے رحمت کے فرشتے آنا بند ہو جاتے ہیں " وغیرہ کی داستانیں اس نے کان بھر کر سنی۔
وہ اس حرام کے ساتھ خوش تھا۔۔ اور اسے ہمیشہ چھپا کر رکھتا تھا۔۔ اسکی دادی ہٹلر زمانہ تھی ۔ اور آس پاس کے تمام جمہوری گھرانے انکو ڈکٹیٹر کے ہاتھوں یرغمال سمجھتے تھے۔۔ حالانکہ وہ خوشحال تھے۔۔ انسانی مزاج میں بہت لچک ہوتی ہے سو انہوں نے یونہی رہنا سیکھ لیا تھا۔۔
رضوان پنی بلبل سے چپکے چپکے کھیلتا رہتا تھا۔۔ سکول سے آتے ہی اپنے دراز میں اسے ایک نظر دیکھتا اور موجودگی کا احساس پاتے ہی اسکی تشفی ہوتی ۔۔پھر وہ اپنے بیشتر اوقات میں اس سے خفیہ طور پر کھیلتا رہتا۔۔ اسکی وجہ شائد یہ تھی کہ یہ بلبل ماموں کا دیا ہوا وہ تحفہ تھا جو سات ہزار کلومیٹر کا فاصلہ اسکے لئے طے کر کے آیا تھا۔۔
آٹھ ماہ یونہی گزر گئے ۔ ایک دن وہ سکول سے آیا تو اسکے دور کے رشتہ دار آئے ہوئے تھے ۔۔ انکا بیٹا بھی تھا جو رضوان سےعمر میں کچھ تین سال بڑا تھا۔۔ اور اسکی شرارتیں رضوان سے کچھ سات سال بڑی تھیں۔ اسکے ہاتھوں میں اپنی بلبل دیکھ کر اسے تعجب ہوا اور اپنا دراز خالی پا کر تن بدن میں آگ لگ گئی ۔
اس نے بہتیرا شور مچایا ۔ شکایتیں کیں لیکن کون مانتا کہ یہ کھلونااس کا ہے ۔ مدت سے یہ کھلونا غائب جو تھا۔ اس نے سب کو یاد دلانے کی کوشش کی لیکن آخر کو یہ آمریت کا دور تھا اور ہٹلر ثانی کی ناراضی اس کھلونے سے تھی۔۔
تو پھر وہ منصفی کس سے مانگتا!!
رضوان یوں گویا ہوا ۔۔وہ میری اپنی ہی چیز تھی جسے میں چھپا کر رکھتا تھا مجھ سے چوری کر لیا گیا اور میں خاموشی سے دیکھتا رہا۔۔ جب میں نے واپس چھین لینا چاہا تو یہ کہہ کر مجھے منع کر دیا گیا کہ یہ تمہارا نہیں ہے ۔۔۔
اگر ہے تو ثبوت لاؤ۔۔
اب میں ثبوت کہاں سے لاتا؟؟؟۔۔
واقعات ہوتے ہی گزرنے کے لئے ہیں سو یہ واقعہ بھی گزر کیا ۔ کئی سورج طلوع ہو کر غروب ہوئے کئی چاند جواں ہو کر فنا کی طرف کو نکل گئے۔۔ بچپن گزرا جوانی آئی ۔ ہو کے بہت مستانی آئی۔۔ رضوان کے زہن سے بلبل کا نقش مٹتا گیا۔
دادی کا انتقال ہو ا ۔ ماموں لندن میں مقیم ہوئے اور وہیں اپنا بسیرا پختہ کیا۔۔
ایک سہ پہر رضوان اپنے دوستوں کے ساتھ گاؤں کے نہر کنارے پانی میں پاؤں لٹکائے بیٹھا تھا۔۔ پانی کی لہرو ں کی طرح انکی باتیں بھی دونوں کناروں کے درمیان جھول رہیں تھیں ۔۔
"سنا ہے راجو لوگ مکان چھوڑ گئے ۔"۔ عمیر نے نہر میں پتھر پھینکتے ہوئے کہا ۔
"کیا واقعی ؟۔۔ ہاں سچ میں نے بھی اسکے ابا کو سامان سےبھری گاڑی میں جاتے دیکھا تھا "۔رضوان نے کہاجواب دیا
"سنا ہے شہر کی طرف چلے گئے راجو کا بڑا بھائی پڑھ لکھ کر انجنئر ہو گیا ہے سرکاری نوکری لگی ہے فلیٹ بھی ملا ہے ،"
سلمان نے تفصیل بتائی.
"تو اب اس گھر میں کون رہے گا؟؟" رضوان نے سوال پوچھا۔
ؒ"سنا ہے کوئی نیا خاندان پچھلے گاؤ ں سے آرہا ہے راجو کے کوئی رشتہ دار ہیں ۔۔ وہاں سیلاب نے کافی تباہی مچائی تھی تو یہاں آنے لگے ہیں۔" سلمان نے جواب دیا۔
اتنے میں ایک جیپ پاس سے گزری جو چند قدم کے فاصلے پر بند ہو گئی اسے دھکا دے کر سٹارٹ کرنے کے لئے تینوں جوانوں نے پائنچے چڑھائے۔
جیپ سائیڈوں سے بند تھی اورپچھلے حصے پر پردہ لٹکا ہوا تھا۔۔
دھکا لگانے کے دوران رضوان کی نظر جو اوپر اٹھی تو ہوا نے اسی وقت یہ ستم کیا کہ پردے کو زرا سرکا دیا۔۔
جل پریوں کی کہانیوں کا کوئی کردار یا کسی شاہ جنات کی مقید شہزادی اسکے روبرو تھی ۔۔ کوہ قاف کے چٹیل پہاڑوں پر کوئی پری کالے پتھر پر گال رکھے ہولے ہولے سانس لے رہی تھی ۔۔ شائد لمبے سفر نے اسے تھکا دیا تھا جسکی بناء پر وہ پلکیں یوں جھپکا رہی تھی جیسے اسے نیند آ رہی ہو ۔۔ نیند کے غلبہ میں یہ مخمور آنکھیں جام جم کے نشہ کو شرمندہ کئے دیتیں تھی۔۔
رضوان کا ہاتھ جیپ پر تھا لیکن وہ زور لگانے سے قاصر تھا۔۔
آدھی بند آنکھوں نے رضوان کو تاڑ لیا تھا۔۔ کسی نئے دیوان کا سرنامہ لکھا جا چکا تھا۔۔
جیپ رینگتے رینگتے بابا ترت شاہ کے مزار تک جا پہنچی تھی کہاں محفل سماع چل رہی تھی اور پنجاب سے آئے ہوئے چند قوال اپنی مستی میں مست وارث شاہ کا کلام کچھ یوں ورد کر رہے تھے ۔
 

 نین نرگسی مرگ ممولڑے دے گلاں ٹہکیاں پھل گلاب دا جی
بھواں وانگ کمان لاہور وسن - کوئی حسن نہ انت حساب دا جی

سرمہ نیناں دی دھار وچ پھب رہیا - چڑھیا ہند تے کٹک پنجاب دا جی
کھلی ترنجناں وچ لٹکدی ہے ہاتھی مست جیوں پھرے نواب دی جی

چہرے سوہنے تے خال خط بندے خوش خط جیوں حرف کتاب دا جی
جیہڑے دیکھنے دے ریجھ وان آہے وڈا واغدا تنہاں دے باب دا جی

ہوٹھ سرخ یاقوت جیوں لعل چمکن ٹھوڈی سیب ولایتی سار وچوں
نک الف حسُینی دا پیپلا سی زلف ناگ خزانے دی بار وچوں

یہ جیپ راجو کے گھر پر پہنچ کر رکی ۔ یہ نیا خاندان وہی راجو کا رشتہ دارتھاجو اب سے ان کے گھر میں رہنے آیا تھا۔ رضوان نے نہ صرف جیپ گھر تک پہنچائی بلکہ سارا سامان بھی دوستوں سے اتروایا اور گھر کے اندر بھی پہنچایا۔۔ پڑوسی کے حقوق دوستوں کو ایک ایک کر کے گنوائے تب جا کر بات بنی ۔
تین راتیں کیسے کٹیں یہ تو یا رضوان جانے یا اسکا رب جانے۔۔ یا وہ جانے جو جان کر انجان بنا ہوا ہے۔
راجو اور رضوان کے گھر کی پچھلی دیواریں آپ میں لمس کرتیں تھیں کوئی ڈیڑھ فٹ کا ٹکڑا دونوں مکانوں کا سانجھا تھا۔
عشق کے قاف میں دو روحیں بند ہو چکی تھیں ۔ اور اس قاف کی دیواریں اتنی چکنی تھیں کہ بہت کوشش کے باوجود بھی اس سے خلاصی ممکن نہ تھی۔۔
عشق کا شین نیزے جیسا نوکدار تھا ۔۔ صرف ڈیڑھ فٹ ہی تھا جو اس منظر نامے میں چند خاموش نگاہوں کا وکیل تھا۔۔
پہلے کچھ دن نظریں اٹھتی جھکتی رہیں ، کن انکھیوں سے باتیں جاری رہیں ۔۔ پھر مسکراہٹوں کا سلسلہ چل نکلا ۔۔
رضوان اس دوران پتنگ اڑانا بھی سیکھ گیا حالانکہ پہلے اسے اسکا کبھی بھی شوق نہیں رہا تھا ۔ وہ پتنگ اڑاتے ہوئے اوٹ پٹانگ حرکتیں کرتا (یہ اخلاق کے دائرہ میں ہوتیں) اور حسینہ مسکرا کر موتیوں جیسے دانتوں کے سرے دکھا چلتی۔۔
رضوان شہباز قلندر کے اشعار گنگنانے لگتا۔
نمی دانم کہ آخر چوں دمِ دیدار می رقصم
مگر نازم بہ ایں ذوقے کہ پیشِ یار می رقصم
(نہیں جانتا کہ آخر دیدار کے وقت میں کیوں رقص کر رہا ہوں، لیکن اپنے اس ذوق پر نازاں ہوں کہ اپنے یار کے سامنے رقص کر رہا ہوں۔)

پھر چند ددن میں باتیں چل نکلی تو پتا چلا کہ اس خوش خرام کا نام شکیلہ گل تھا۔۔ اپنے نام کی طرح خوش طبیعت حسِن صورت کے ساتھ خوب سیرت اور ملنسار،،
رضوان کو اگر ڈر تھا تو صرف سماج کا جو دادی کی طرح ڈکٹیٹر تھا اور ھٰذا حرام’‘ کی صدا لگانا انکا مشغلہ تھا۔۔ یہ تحفہ بھی کئی گاؤں عبور کر کے آیا تھا۔۔
وہ نہیں جانتا تھا کہ اسے اپنی بلبل کو سب کے سامنے لانے میں دیر ہو چکی تھی اور اس بار بھی اسکی غلطی یہی دیر کرنا تھی۔۔
وہ نہ جانتا تھا کہ راجو کے گھرانے نے اس سیلاب ذدہ خاندان کو اپنا گھر کس شرط پر چھوڑا تھا۔
ہاں !وہ دور کا رشتہ دار راجو ہی تھا۔۔جو بلبل کو دراز سے نکال لینا چاہتا تھا۔۔
راجو سے اسکی زیادہ جان پہچان نہیں تھی بس راستے میں رسماََ سلام دعا ہو جاتی تھی۔
بڑی افتاد آن پڑی تھی ۔ گل کو اپنی محبت پیاری تھی لیکن وہ اپنے ماں باپ کو در در بھٹکتا دیکھ چکی تھی۔
چکی کے دو پاٹوں میں پستے انسان ۔۔۔۔۔"اگر محبتوں کی عمر دیکھیں تو ماں باپ کا پلڑا بھاری اور اگر محبت کو بنیاد بنا کر مستقبل کی عمارت کھڑی کرنا چاہیں تو ۔۔۔ رضوان تم ہی بتاؤ کیا کیا جائے۔۔"گل نے فلسفہ نہیں پڑھا تھا
وہ کچھ اور ہی سیکھ گئی تھی۔۔
"میرے ابا کے پاس وہ نکڑ والی زمین ہے " رضوان نے اشارہ دیتے ہوئے کہا "میں اپنے دوستوں کے ساتھ مل کر آٹھ دن میں اس پر چھپر ڈلوا دوں اگا۔ پھر تم لوگ وہاں رہنا اور پھر تمہیں ایسی کسی مجبوری سے شادی نہیں کرنی پڑے گی"
"ہاں میں اماں سے بات کروں گی ، ۔۔ لیکن کیسے کروں کیا بتاوں گی میں ۔۔ مجھے لاج آتی ہے" گل کہنے لگی۔
گلْ یہ بتانے کا موقع ڈھونڈ رہی تھی کہ شام کو ابا اس کی تاریخ طے کر کے آ گئے۔۔
آگے غیرتوں کے کانٹے ۔۔ زہریلے کانٹے ۔۔ "اب کچھ نہیں ہو سکتا رضوان ۔۔ ہم لاکھ کچھ کر لیں اب کچھ نہیں ہو سکتا۔سامنے والی دو ایکڑ زمین بھی ابا کے نام کرنے کا وعدہ ہے ۔۔ مجھے بیچا گیا ہے۔۔ "گلْ رونے لگی
" کیا ہی سستا بیچا گیا ہے ۔۔"رضوان یہ کہہ کر چھت سے اتر آیا۔
اس نے ہمت اکھٹی کی اور ابا سے ساری بات کہہ ڈالی ۔۔ ابا بھی بیٹی والے تھے اس لئے انہوں نے رضوان کو ہی خاموشی کا درس دیا۔۔ رضوان چلاتا رہا ۔۔ بلبل میری ہے ۔۔ لیکن اس بار بھی ثبوت لانے سے قاصر رہا ۔۔
شکیلہ گلْ کی آس یاس میں تبدیل ہوتی گئی ۔۔ وہ بھی ایک کھلونا تھی ۔۔ سو جسکے ہاتھ تھی اسی کی ملکیت تھی۔۔
انہیں بھاگنا نہ کسی نے سکھایا تھا نہ ہی انہوں نے ایسا کبھی ہوتے دیکھا تھا۔۔ سو دونوں نے شتر مرغ کی طرح زمیں میں سر دبا دیا۔۔
آج بھی بلبل اپنے میکے جب آتی ہے تو اسکے گلابی مائل بھورے پیروں میں وہی دھاگہ بندھا ہوتا ہے جو بچے نے اپنے ماموں کے دئیے تحفے پر باندھا تھا۔۔
اب اکثر چھٹ پر ٹہلتے ہوئے ضوان کچھ کنگناتا رہتاہے
تُو آں قاتل کہ از بہرِ تماشا خونِ من ریزی
من آں بسمل کہ زیرِ خنجرِ خوں خوار می رقصم
(تُو وہ قاتل کہ تماشے کیلیے میرا خون بہاتا ہے اور میں وہ بسمل ہوں کہ خوں خوار خنجر کے نیچے رقص کرتا ہوں۔)
ایازی
"کیا کیجئے جانا تو پڑے گا سلطان حکم دے چکے ہیں۔۔ انکو مجھ پر بہت مان ہے اور تم مجھے رکنے کا کہہ رہی ہو ۔"ڈھال کو اٹھاتے ہوئے عالی ہمت سپاہی نے کہا
"آپ نےاپنی ساری عمر سلطان کے لئے جنگوں میں جھونک دی ، کیا ہوا جو اس بار آپ شریک نہ ہوں ؟؟۔"بائیں گال سے اشک مٹاتے ہوئے سپاہی کی اہلیہ بولی"آپکو بیٹا ہونے کی کتنی خوشی ہو گی ۔آپ موجود ہونگے تو مجھے بھی تسلی رہے گی"
"میں نہیں رک سکتا بانو۔۔ مجھے جانا ہو گا۔تین اطراف سے دشمن حملہ آور ہے ۔مجھے اپنے ہونے والے بیٹے کے ساتھ ساتھ پوری سلطنت کے نونہالوں کا خیال ہے ۔۔۔ اور اگر اللہ نے بیٹا عطا فرمایا تو واپسی پر میں خود اسکا نام رکھوں گا، "
سپاہی نے یہ کہتے ہوئے اپنی زرہ کاتسمہ باندھا اور اہلیہ کا ماتھا چوم کر باہر نکل گیا ۔۔
حب وطن سے مجبور سپاہی اپنی گھر والی سے مزید کچھ نہ کہ پایا ۔۔ اسکی خاموشی ہزار ہا تقاریر پر بھاری تھی۔۔
سپاہی نے باہر اپنے پڑوسی کو ایک کاغذ کا ٹکڑا پکڑایا اور تاکید کی کہ اگر وہ جنگ سے زندہ نہ لوٹا تو اس کاغذ کو اسکے گھر پہنچا دیا جائے ۔۔ اس کاغز پر لکھا تھا "میرے بیٹے کانام زمان خان رکھا جائے۔۔ "
سلطان کا نام بھی زمان خان تھا۔۔۔

Tuesday, July 14, 2015

 یہ سن 1935 کا واقعہ ہے ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ 
جب اس نے چھٹے رمضان پہلا روزہ رکھا تو گلی میں کسی نے اسے گھٹیا انداز سے آواز دی ۔۔۔۔ 
وہ پلٹی اور کہنے لگی ۔۔
ہاں میں ایک طوائف ہوں ۔۔۔۔۔
کیا پوچھتے ہو مجھ سے قرض میں آٹے کی بوری خریدنے کی بابت۔۔
رمضان چل رہا ہے ۔۔۔ دھندا مندا پڑا ہے ۔۔

 یہ جو سارا سال میری چوکھٹ پر جھکے چلے جاتے تھے ۔۔ رقص پر سنہری تھیلیا ں نچھاور کئے جاتے تھے
وہ اس مہینے حاجی صاحب بنے ہوئے ہیں ۔۔۔ ماشاء اللہ انکو دیکھو زرا ۔۔
میرے کوٹھے سے گزرتے ہوئے زرازیادہ زور سے استغفار پڑھنے لگتے ہیں ۔۔۔
وہ زبیر میاں جو میرا ٹھمکا پسند کرتا تھا ۔۔ اب مجھے دیکھ کر تسبیح جیب سے نکالتا ہے
دیکھو اس شعیب کو ۔۔ کل اسکی مجھ پر نظر پڑی تو لا حول ولا قوۃ کا ورد کرنے لگا۔۔
اب دیکھنا پندرہ دن بعد چاند رات پر کیسے سب کے ایمان اترتے ہیں ۔۔۔۔
۔

اب 
۔
یہ سن 2015 کا واقعہ ہے ۔۔۔۔80 سال گزر چکے ہیں ۔۔۔۔۔۔۔۔۔
پہلے رمضان پر زبیر میاں نے اپنے پوتے کو خوب ڈانٹ سنائی۔۔ کہ وہ پانی والا ڈانس دیکھ رہا تھا
زبیر میاں نے اسی وقت کیبل ااپریٹر کو بلا کر چینل ہائیڈ (hide)کروا دیا
شعیب صاحب اس دنیا سے جا چکے ہیں انکے بیٹے کی حالیہ دنوں میں نعتیہ کلام کی کیسٹ آئی ہے
پچھلے مہینے موصوف نے اپنا میوزک البم (نیناں کنواریاں دے) ریلیز کیا تھا۔۔۔
ایک جج نے مجرم سے پوچھا کہ تمہاری آخری خواہش کیا ہے، اس نے جواب دیا کہ میری آخری خواہش یہ ہے کہ مجھے سزا نہ دی جائے۔
جتنی بچگانہ اس مجرم کی خواہش تھی اتنی ہی بچگانہ ہماری خواہشات بھی ہیں اور ہماری دعائیں ہماری خواہشات کا آئینہ دارہوتی ہیں۔خود پسندی دوردھاری تلوارہے یہ مقابلے میں ڈال کر آہن کو خنجر تیز بھی بنا سکتی ہےاور حد سے زیادہ بھڑکا کر اسی خنجر تیز کا شکار بھی۔
انسان اپنی پسندیدگی اور اپنی خواہشوں کے بھنور میں اس قدر پھنس چکا ہے کہ اسے خود اپنی مانگ کا بھی خیال نہیں۔
نوافل کا اہتمام کر کے اس چیز کی آرزومیں دعا کرنا جو ممنوع ہے،خود کو دھوکہ دینا ہے۔مثلا کسی بے ضرر زی روح کو ستانے کے لئے طاقت کی آرزو اور اس آرزو کی تکمیل کے لئے تسبیحات کی قطار۔۔
.
لوگ خُوش ہیں اُسے دے دے کے عبادت کے فریب
وہ مگر! خُوب سمجھتا ہے، خُدا ہے وُہ بھی