Thursday, July 16, 2015



افسانہ ۔۔۔ بلبل

بڑے ماموں سب سے جدا تھے ۔۔ وہ الگ کمرے میں بیٹھے ہمیشہ پڑھتے رہتے تھے ۔ انہیں پڑھنے سے بہت لگاؤ تھا۔
انکے اس مطالعے کے شوق کی بناء پروہ ہمیشہ اول آتے تھے ۔ اسلامیہ کالج پشاور میں اعلی پوزیشن حاصل کرنے پر انہیں حکومت کی طرف سے وظیفہ سے نوازا گیا اورانہیں اعلی تعلیم کے حصول کے لئے برطانیہ بھیجنے کی پیشکش کی گئی جسے انہوں نے قبول کر لیا۔۔ رضوان سے انکو خاص لگاؤ تھا۔۔ وہ جب چھوٹا تھا تو بڑے ماموں اسے گود میں بٹھا کر گھنٹوں اس سے باتیں کیا کرتے ۔۔ اسکی بچگانی موشگافیوں اور احمقانہ سوالوں پر مسکراتے ۔۔ رضوان طوئے اور ظوئے ناک میں کہتا تھا
اور اسکی یہ ادا ماموں کو بہت بھاتی تھی۔۔
ماموں برطانیہ کے لئے عازم سفر ہوئے تو اپنے ساتھ رضوان کی یادیں ہی لے جا سکے ۔
دنیا کے بکھیڑوں میں پڑے ہوؤں کو مشکل سے اپنا آپ یاد آتا ہے ۔ لیکن ماموں کو پردیس کی رنگینیوں میں اپنی مٹی کی خنکی، اپنے کھیت کھلیانوں کی سوندھی خوشبو ۔۔ اپنے یاروں دوستوں کی سنگت کے خوشنما مناظر اکثر یادآتے تھے ، انہی میں کبھی کبھار رضوان بھی یاد آ جاتا تھا اور ماموں اپنے ہونٹوں پر ہلکا تبسم پھیلا کر زمیں کو دیکھنے لگتے۔۔
دو سال بعد ماموں کی واپسی ہوئی۔۔ ائیرپورٹ پر خاصہ رش تھا۔ ماموں کو دیکھتے ہی ائیر پورٹ پر موجود ایک جم غفیر نے "آ گئے ..آگئے" کا نعرہ لگایا اورانکے باہر آتے ہی انتظامیہ پر یہ راز کھلا کہ آدھے سے زیادہ عوام صرف ایک شخص کو لینے آئی تھی، ماموں چلے تو یہ بارات بھی چل پڑی ۔۔
اگلے دن ماموں نے سب میں تحفے تحائف تقسیم کئے۔ سب کے چہروں پر خوشی تھی۔
رضوان کو بھی ایک ڈبہ ملا تھا۔ جس میں ایک بلبل موجود تھی جو چابی سے چلتی تھی۔ اسکو چابی دینے سے وہ گلابی مائل بھورے ٹانگوں سے اچھل اچھل کر چلتی تھی۔ رضوان کو یہ تحفہ بہت پسند آیا ۔ وہ سارا دن اس سے کھیلتا رہا۔
جب وہ اپنے گھر لوٹا تو اسکے ہاتھ میں یہ جاندار کا مجسمہ دیکھ کر دادی نے کافی غصہ کیا ۔
"ھٰذیٰ حرام’‘۔۔زی روح کا مجسمہ حرام ہے ۔۔یہ ولایتی لوگ تو ایمان چھوڑ ہی جاتے ہیں ۔ اس سے رحمت کے فرشتے آنا بند ہو جاتے ہیں " وغیرہ کی داستانیں اس نے کان بھر کر سنی۔
وہ اس حرام کے ساتھ خوش تھا۔۔ اور اسے ہمیشہ چھپا کر رکھتا تھا۔۔ اسکی دادی ہٹلر زمانہ تھی ۔ اور آس پاس کے تمام جمہوری گھرانے انکو ڈکٹیٹر کے ہاتھوں یرغمال سمجھتے تھے۔۔ حالانکہ وہ خوشحال تھے۔۔ انسانی مزاج میں بہت لچک ہوتی ہے سو انہوں نے یونہی رہنا سیکھ لیا تھا۔۔
رضوان پنی بلبل سے چپکے چپکے کھیلتا رہتا تھا۔۔ سکول سے آتے ہی اپنے دراز میں اسے ایک نظر دیکھتا اور موجودگی کا احساس پاتے ہی اسکی تشفی ہوتی ۔۔پھر وہ اپنے بیشتر اوقات میں اس سے خفیہ طور پر کھیلتا رہتا۔۔ اسکی وجہ شائد یہ تھی کہ یہ بلبل ماموں کا دیا ہوا وہ تحفہ تھا جو سات ہزار کلومیٹر کا فاصلہ اسکے لئے طے کر کے آیا تھا۔۔
آٹھ ماہ یونہی گزر گئے ۔ ایک دن وہ سکول سے آیا تو اسکے دور کے رشتہ دار آئے ہوئے تھے ۔۔ انکا بیٹا بھی تھا جو رضوان سےعمر میں کچھ تین سال بڑا تھا۔۔ اور اسکی شرارتیں رضوان سے کچھ سات سال بڑی تھیں۔ اسکے ہاتھوں میں اپنی بلبل دیکھ کر اسے تعجب ہوا اور اپنا دراز خالی پا کر تن بدن میں آگ لگ گئی ۔
اس نے بہتیرا شور مچایا ۔ شکایتیں کیں لیکن کون مانتا کہ یہ کھلونااس کا ہے ۔ مدت سے یہ کھلونا غائب جو تھا۔ اس نے سب کو یاد دلانے کی کوشش کی لیکن آخر کو یہ آمریت کا دور تھا اور ہٹلر ثانی کی ناراضی اس کھلونے سے تھی۔۔
تو پھر وہ منصفی کس سے مانگتا!!
رضوان یوں گویا ہوا ۔۔وہ میری اپنی ہی چیز تھی جسے میں چھپا کر رکھتا تھا مجھ سے چوری کر لیا گیا اور میں خاموشی سے دیکھتا رہا۔۔ جب میں نے واپس چھین لینا چاہا تو یہ کہہ کر مجھے منع کر دیا گیا کہ یہ تمہارا نہیں ہے ۔۔۔
اگر ہے تو ثبوت لاؤ۔۔
اب میں ثبوت کہاں سے لاتا؟؟؟۔۔
واقعات ہوتے ہی گزرنے کے لئے ہیں سو یہ واقعہ بھی گزر کیا ۔ کئی سورج طلوع ہو کر غروب ہوئے کئی چاند جواں ہو کر فنا کی طرف کو نکل گئے۔۔ بچپن گزرا جوانی آئی ۔ ہو کے بہت مستانی آئی۔۔ رضوان کے زہن سے بلبل کا نقش مٹتا گیا۔
دادی کا انتقال ہو ا ۔ ماموں لندن میں مقیم ہوئے اور وہیں اپنا بسیرا پختہ کیا۔۔
ایک سہ پہر رضوان اپنے دوستوں کے ساتھ گاؤں کے نہر کنارے پانی میں پاؤں لٹکائے بیٹھا تھا۔۔ پانی کی لہرو ں کی طرح انکی باتیں بھی دونوں کناروں کے درمیان جھول رہیں تھیں ۔۔
"سنا ہے راجو لوگ مکان چھوڑ گئے ۔"۔ عمیر نے نہر میں پتھر پھینکتے ہوئے کہا ۔
"کیا واقعی ؟۔۔ ہاں سچ میں نے بھی اسکے ابا کو سامان سےبھری گاڑی میں جاتے دیکھا تھا "۔رضوان نے کہاجواب دیا
"سنا ہے شہر کی طرف چلے گئے راجو کا بڑا بھائی پڑھ لکھ کر انجنئر ہو گیا ہے سرکاری نوکری لگی ہے فلیٹ بھی ملا ہے ،"
سلمان نے تفصیل بتائی.
"تو اب اس گھر میں کون رہے گا؟؟" رضوان نے سوال پوچھا۔
ؒ"سنا ہے کوئی نیا خاندان پچھلے گاؤ ں سے آرہا ہے راجو کے کوئی رشتہ دار ہیں ۔۔ وہاں سیلاب نے کافی تباہی مچائی تھی تو یہاں آنے لگے ہیں۔" سلمان نے جواب دیا۔
اتنے میں ایک جیپ پاس سے گزری جو چند قدم کے فاصلے پر بند ہو گئی اسے دھکا دے کر سٹارٹ کرنے کے لئے تینوں جوانوں نے پائنچے چڑھائے۔
جیپ سائیڈوں سے بند تھی اورپچھلے حصے پر پردہ لٹکا ہوا تھا۔۔
دھکا لگانے کے دوران رضوان کی نظر جو اوپر اٹھی تو ہوا نے اسی وقت یہ ستم کیا کہ پردے کو زرا سرکا دیا۔۔
جل پریوں کی کہانیوں کا کوئی کردار یا کسی شاہ جنات کی مقید شہزادی اسکے روبرو تھی ۔۔ کوہ قاف کے چٹیل پہاڑوں پر کوئی پری کالے پتھر پر گال رکھے ہولے ہولے سانس لے رہی تھی ۔۔ شائد لمبے سفر نے اسے تھکا دیا تھا جسکی بناء پر وہ پلکیں یوں جھپکا رہی تھی جیسے اسے نیند آ رہی ہو ۔۔ نیند کے غلبہ میں یہ مخمور آنکھیں جام جم کے نشہ کو شرمندہ کئے دیتیں تھی۔۔
رضوان کا ہاتھ جیپ پر تھا لیکن وہ زور لگانے سے قاصر تھا۔۔
آدھی بند آنکھوں نے رضوان کو تاڑ لیا تھا۔۔ کسی نئے دیوان کا سرنامہ لکھا جا چکا تھا۔۔
جیپ رینگتے رینگتے بابا ترت شاہ کے مزار تک جا پہنچی تھی کہاں محفل سماع چل رہی تھی اور پنجاب سے آئے ہوئے چند قوال اپنی مستی میں مست وارث شاہ کا کلام کچھ یوں ورد کر رہے تھے ۔
 

 نین نرگسی مرگ ممولڑے دے گلاں ٹہکیاں پھل گلاب دا جی
بھواں وانگ کمان لاہور وسن - کوئی حسن نہ انت حساب دا جی

سرمہ نیناں دی دھار وچ پھب رہیا - چڑھیا ہند تے کٹک پنجاب دا جی
کھلی ترنجناں وچ لٹکدی ہے ہاتھی مست جیوں پھرے نواب دی جی

چہرے سوہنے تے خال خط بندے خوش خط جیوں حرف کتاب دا جی
جیہڑے دیکھنے دے ریجھ وان آہے وڈا واغدا تنہاں دے باب دا جی

ہوٹھ سرخ یاقوت جیوں لعل چمکن ٹھوڈی سیب ولایتی سار وچوں
نک الف حسُینی دا پیپلا سی زلف ناگ خزانے دی بار وچوں

یہ جیپ راجو کے گھر پر پہنچ کر رکی ۔ یہ نیا خاندان وہی راجو کا رشتہ دارتھاجو اب سے ان کے گھر میں رہنے آیا تھا۔ رضوان نے نہ صرف جیپ گھر تک پہنچائی بلکہ سارا سامان بھی دوستوں سے اتروایا اور گھر کے اندر بھی پہنچایا۔۔ پڑوسی کے حقوق دوستوں کو ایک ایک کر کے گنوائے تب جا کر بات بنی ۔
تین راتیں کیسے کٹیں یہ تو یا رضوان جانے یا اسکا رب جانے۔۔ یا وہ جانے جو جان کر انجان بنا ہوا ہے۔
راجو اور رضوان کے گھر کی پچھلی دیواریں آپ میں لمس کرتیں تھیں کوئی ڈیڑھ فٹ کا ٹکڑا دونوں مکانوں کا سانجھا تھا۔
عشق کے قاف میں دو روحیں بند ہو چکی تھیں ۔ اور اس قاف کی دیواریں اتنی چکنی تھیں کہ بہت کوشش کے باوجود بھی اس سے خلاصی ممکن نہ تھی۔۔
عشق کا شین نیزے جیسا نوکدار تھا ۔۔ صرف ڈیڑھ فٹ ہی تھا جو اس منظر نامے میں چند خاموش نگاہوں کا وکیل تھا۔۔
پہلے کچھ دن نظریں اٹھتی جھکتی رہیں ، کن انکھیوں سے باتیں جاری رہیں ۔۔ پھر مسکراہٹوں کا سلسلہ چل نکلا ۔۔
رضوان اس دوران پتنگ اڑانا بھی سیکھ گیا حالانکہ پہلے اسے اسکا کبھی بھی شوق نہیں رہا تھا ۔ وہ پتنگ اڑاتے ہوئے اوٹ پٹانگ حرکتیں کرتا (یہ اخلاق کے دائرہ میں ہوتیں) اور حسینہ مسکرا کر موتیوں جیسے دانتوں کے سرے دکھا چلتی۔۔
رضوان شہباز قلندر کے اشعار گنگنانے لگتا۔
نمی دانم کہ آخر چوں دمِ دیدار می رقصم
مگر نازم بہ ایں ذوقے کہ پیشِ یار می رقصم
(نہیں جانتا کہ آخر دیدار کے وقت میں کیوں رقص کر رہا ہوں، لیکن اپنے اس ذوق پر نازاں ہوں کہ اپنے یار کے سامنے رقص کر رہا ہوں۔)

پھر چند ددن میں باتیں چل نکلی تو پتا چلا کہ اس خوش خرام کا نام شکیلہ گل تھا۔۔ اپنے نام کی طرح خوش طبیعت حسِن صورت کے ساتھ خوب سیرت اور ملنسار،،
رضوان کو اگر ڈر تھا تو صرف سماج کا جو دادی کی طرح ڈکٹیٹر تھا اور ھٰذا حرام’‘ کی صدا لگانا انکا مشغلہ تھا۔۔ یہ تحفہ بھی کئی گاؤں عبور کر کے آیا تھا۔۔
وہ نہیں جانتا تھا کہ اسے اپنی بلبل کو سب کے سامنے لانے میں دیر ہو چکی تھی اور اس بار بھی اسکی غلطی یہی دیر کرنا تھی۔۔
وہ نہ جانتا تھا کہ راجو کے گھرانے نے اس سیلاب ذدہ خاندان کو اپنا گھر کس شرط پر چھوڑا تھا۔
ہاں !وہ دور کا رشتہ دار راجو ہی تھا۔۔جو بلبل کو دراز سے نکال لینا چاہتا تھا۔۔
راجو سے اسکی زیادہ جان پہچان نہیں تھی بس راستے میں رسماََ سلام دعا ہو جاتی تھی۔
بڑی افتاد آن پڑی تھی ۔ گل کو اپنی محبت پیاری تھی لیکن وہ اپنے ماں باپ کو در در بھٹکتا دیکھ چکی تھی۔
چکی کے دو پاٹوں میں پستے انسان ۔۔۔۔۔"اگر محبتوں کی عمر دیکھیں تو ماں باپ کا پلڑا بھاری اور اگر محبت کو بنیاد بنا کر مستقبل کی عمارت کھڑی کرنا چاہیں تو ۔۔۔ رضوان تم ہی بتاؤ کیا کیا جائے۔۔"گل نے فلسفہ نہیں پڑھا تھا
وہ کچھ اور ہی سیکھ گئی تھی۔۔
"میرے ابا کے پاس وہ نکڑ والی زمین ہے " رضوان نے اشارہ دیتے ہوئے کہا "میں اپنے دوستوں کے ساتھ مل کر آٹھ دن میں اس پر چھپر ڈلوا دوں اگا۔ پھر تم لوگ وہاں رہنا اور پھر تمہیں ایسی کسی مجبوری سے شادی نہیں کرنی پڑے گی"
"ہاں میں اماں سے بات کروں گی ، ۔۔ لیکن کیسے کروں کیا بتاوں گی میں ۔۔ مجھے لاج آتی ہے" گل کہنے لگی۔
گلْ یہ بتانے کا موقع ڈھونڈ رہی تھی کہ شام کو ابا اس کی تاریخ طے کر کے آ گئے۔۔
آگے غیرتوں کے کانٹے ۔۔ زہریلے کانٹے ۔۔ "اب کچھ نہیں ہو سکتا رضوان ۔۔ ہم لاکھ کچھ کر لیں اب کچھ نہیں ہو سکتا۔سامنے والی دو ایکڑ زمین بھی ابا کے نام کرنے کا وعدہ ہے ۔۔ مجھے بیچا گیا ہے۔۔ "گلْ رونے لگی
" کیا ہی سستا بیچا گیا ہے ۔۔"رضوان یہ کہہ کر چھت سے اتر آیا۔
اس نے ہمت اکھٹی کی اور ابا سے ساری بات کہہ ڈالی ۔۔ ابا بھی بیٹی والے تھے اس لئے انہوں نے رضوان کو ہی خاموشی کا درس دیا۔۔ رضوان چلاتا رہا ۔۔ بلبل میری ہے ۔۔ لیکن اس بار بھی ثبوت لانے سے قاصر رہا ۔۔
شکیلہ گلْ کی آس یاس میں تبدیل ہوتی گئی ۔۔ وہ بھی ایک کھلونا تھی ۔۔ سو جسکے ہاتھ تھی اسی کی ملکیت تھی۔۔
انہیں بھاگنا نہ کسی نے سکھایا تھا نہ ہی انہوں نے ایسا کبھی ہوتے دیکھا تھا۔۔ سو دونوں نے شتر مرغ کی طرح زمیں میں سر دبا دیا۔۔
آج بھی بلبل اپنے میکے جب آتی ہے تو اسکے گلابی مائل بھورے پیروں میں وہی دھاگہ بندھا ہوتا ہے جو بچے نے اپنے ماموں کے دئیے تحفے پر باندھا تھا۔۔
اب اکثر چھٹ پر ٹہلتے ہوئے ضوان کچھ کنگناتا رہتاہے
تُو آں قاتل کہ از بہرِ تماشا خونِ من ریزی
من آں بسمل کہ زیرِ خنجرِ خوں خوار می رقصم
(تُو وہ قاتل کہ تماشے کیلیے میرا خون بہاتا ہے اور میں وہ بسمل ہوں کہ خوں خوار خنجر کے نیچے رقص کرتا ہوں۔)
ایازی
"کیا کیجئے جانا تو پڑے گا سلطان حکم دے چکے ہیں۔۔ انکو مجھ پر بہت مان ہے اور تم مجھے رکنے کا کہہ رہی ہو ۔"ڈھال کو اٹھاتے ہوئے عالی ہمت سپاہی نے کہا
"آپ نےاپنی ساری عمر سلطان کے لئے جنگوں میں جھونک دی ، کیا ہوا جو اس بار آپ شریک نہ ہوں ؟؟۔"بائیں گال سے اشک مٹاتے ہوئے سپاہی کی اہلیہ بولی"آپکو بیٹا ہونے کی کتنی خوشی ہو گی ۔آپ موجود ہونگے تو مجھے بھی تسلی رہے گی"
"میں نہیں رک سکتا بانو۔۔ مجھے جانا ہو گا۔تین اطراف سے دشمن حملہ آور ہے ۔مجھے اپنے ہونے والے بیٹے کے ساتھ ساتھ پوری سلطنت کے نونہالوں کا خیال ہے ۔۔۔ اور اگر اللہ نے بیٹا عطا فرمایا تو واپسی پر میں خود اسکا نام رکھوں گا، "
سپاہی نے یہ کہتے ہوئے اپنی زرہ کاتسمہ باندھا اور اہلیہ کا ماتھا چوم کر باہر نکل گیا ۔۔
حب وطن سے مجبور سپاہی اپنی گھر والی سے مزید کچھ نہ کہ پایا ۔۔ اسکی خاموشی ہزار ہا تقاریر پر بھاری تھی۔۔
سپاہی نے باہر اپنے پڑوسی کو ایک کاغذ کا ٹکڑا پکڑایا اور تاکید کی کہ اگر وہ جنگ سے زندہ نہ لوٹا تو اس کاغذ کو اسکے گھر پہنچا دیا جائے ۔۔ اس کاغز پر لکھا تھا "میرے بیٹے کانام زمان خان رکھا جائے۔۔ "
سلطان کا نام بھی زمان خان تھا۔۔۔

Tuesday, July 14, 2015

 یہ سن 1935 کا واقعہ ہے ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ 
جب اس نے چھٹے رمضان پہلا روزہ رکھا تو گلی میں کسی نے اسے گھٹیا انداز سے آواز دی ۔۔۔۔ 
وہ پلٹی اور کہنے لگی ۔۔
ہاں میں ایک طوائف ہوں ۔۔۔۔۔
کیا پوچھتے ہو مجھ سے قرض میں آٹے کی بوری خریدنے کی بابت۔۔
رمضان چل رہا ہے ۔۔۔ دھندا مندا پڑا ہے ۔۔

 یہ جو سارا سال میری چوکھٹ پر جھکے چلے جاتے تھے ۔۔ رقص پر سنہری تھیلیا ں نچھاور کئے جاتے تھے
وہ اس مہینے حاجی صاحب بنے ہوئے ہیں ۔۔۔ ماشاء اللہ انکو دیکھو زرا ۔۔
میرے کوٹھے سے گزرتے ہوئے زرازیادہ زور سے استغفار پڑھنے لگتے ہیں ۔۔۔
وہ زبیر میاں جو میرا ٹھمکا پسند کرتا تھا ۔۔ اب مجھے دیکھ کر تسبیح جیب سے نکالتا ہے
دیکھو اس شعیب کو ۔۔ کل اسکی مجھ پر نظر پڑی تو لا حول ولا قوۃ کا ورد کرنے لگا۔۔
اب دیکھنا پندرہ دن بعد چاند رات پر کیسے سب کے ایمان اترتے ہیں ۔۔۔۔
۔

اب 
۔
یہ سن 2015 کا واقعہ ہے ۔۔۔۔80 سال گزر چکے ہیں ۔۔۔۔۔۔۔۔۔
پہلے رمضان پر زبیر میاں نے اپنے پوتے کو خوب ڈانٹ سنائی۔۔ کہ وہ پانی والا ڈانس دیکھ رہا تھا
زبیر میاں نے اسی وقت کیبل ااپریٹر کو بلا کر چینل ہائیڈ (hide)کروا دیا
شعیب صاحب اس دنیا سے جا چکے ہیں انکے بیٹے کی حالیہ دنوں میں نعتیہ کلام کی کیسٹ آئی ہے
پچھلے مہینے موصوف نے اپنا میوزک البم (نیناں کنواریاں دے) ریلیز کیا تھا۔۔۔
ایک جج نے مجرم سے پوچھا کہ تمہاری آخری خواہش کیا ہے، اس نے جواب دیا کہ میری آخری خواہش یہ ہے کہ مجھے سزا نہ دی جائے۔
جتنی بچگانہ اس مجرم کی خواہش تھی اتنی ہی بچگانہ ہماری خواہشات بھی ہیں اور ہماری دعائیں ہماری خواہشات کا آئینہ دارہوتی ہیں۔خود پسندی دوردھاری تلوارہے یہ مقابلے میں ڈال کر آہن کو خنجر تیز بھی بنا سکتی ہےاور حد سے زیادہ بھڑکا کر اسی خنجر تیز کا شکار بھی۔
انسان اپنی پسندیدگی اور اپنی خواہشوں کے بھنور میں اس قدر پھنس چکا ہے کہ اسے خود اپنی مانگ کا بھی خیال نہیں۔
نوافل کا اہتمام کر کے اس چیز کی آرزومیں دعا کرنا جو ممنوع ہے،خود کو دھوکہ دینا ہے۔مثلا کسی بے ضرر زی روح کو ستانے کے لئے طاقت کی آرزو اور اس آرزو کی تکمیل کے لئے تسبیحات کی قطار۔۔
.
لوگ خُوش ہیں اُسے دے دے کے عبادت کے فریب
وہ مگر! خُوب سمجھتا ہے، خُدا ہے وُہ بھی