Tuesday, September 01, 2015

کمینہ دوست ۔۔

بلال میرا پکا دوست تھا۔جتنا وہ پکا دوست تھا اتنا ہی اس میں کمینہ پن بھی بھرا تھا۔بچپن میں ہم چھوٹے غباروں کو پانی سے بھر دیتے اور گھات لگا کر محلے والوں پر پھینک دیتے جس سے غبارہ پھٹ جاتا اور ہم اپنی چپل بغل میں دبا کر یوں بھاگتے کہ آندھیاں شرمندہ ہو جاتیں۔۔۔
یوں سمجھئے کہ بلال دوست نہیں تنقید کے پانی سے بھرا ایک غبارہ تھا جو ہر وقت گھات میں ہوتا تھا۔پھٹنے کو تیار۔۔۔
میں اپنے دیگر "شریف" دوستوں کے ساتھ بیٹھا عقل کی گتھیاں سلجھانے میں مشغول تھا۔ کبھی شیخ سعدی پر بات ہوتی کبھی
رومی زیر دام آتے ، نیوٹن اور آئن سٹائن تو گویا ساتھ ہی بیٹھے رہتے ۔۔ایسے پر علم اور پر رونق ماحول میں بروں کی شامت سے بلال کہیں سے ٹپک پڑا (نازل ہوا) ۔
اوئے بغیرت تو یہاں انڈے دے رہا ہے وہاں تیری امی محلے کے لڑکوں سے دودھ دہی ، روٹی منگوا رہی ہے
شرم تو تجھ میں زرابھی نہیں ۔۔ کوئی شرم ہوتی ہے کوئی حیاء ہوتی ہے ۔۔ اس سے پہلے کہ میرا جوتا اسکے سر کو چومتاوہ فوراََ
آندھی ہو گیا۔ دہی تو محلے والا لے ہی آیا تھا، ادھر بلال نے عزت کی دہی کو لسی بنا دیا تھا۔۔
یہ کوئی واحد مثال نہ تھی رنگ میں بھنگ ڈالنا اسکی طبیعت میں شامل تھا۔۔
چند دن بعد جمعرات والے دن میں چھت سے پتنگ اڑاتے ہوئے گر گیا۔۔
جمعرات والے دن اکثر گھروں میں کپڑے دھوئے جاتے ہیں جو بعد میں چھت پر سکھائے جاتے ہیں ۔
مجھے اتنا یاد ہے کہ میں چھت پر کھڑا تھانظر کچھ ڈگمگائی تو ساتھ ہی قدم بھی ڈگمگا گئے۔۔ لرزش لغزش ہو گئی اور اسکے بعد چراغوں میں روشنی ہی نہ رہی ۔۔ آنکھ کھلی تو پتا چلا کہ ہسپتال میں موجود ہوں ۔دائیں طرف جوس کے کچھ ڈبے دیکھ کر سارا غم نکل گیا اور دل باغ باغ ہو گیا۔ بائیں طرف کا منظر کچھ اور ہی تھا۔۔۔
بلال اس طرف بنچ پر بیٹھا تھا اور اسکا سر میرے سینے کے برابر ہی بستر پر پڑا تھا ۔ ساتھ ہی اسکےسسکی لینے کی آواز بھی آ رہی تھی ۔۔ نہ جانے کب سے بیٹھا تھا۔ کب سے رو رہا تھا۔۔ کیا یہ وہی بلال تھا۔۔
وہ لمحات بھی گزر گئے ، آج تک بلال نہیں جانتاکہ میں نے اسکی سسکیاں سن لی تھیں ۔۔
اگلے دن سب صحیح ہو چکا تھا صرف 7 ٹانکے آئے تھے ۔ میں نے بلال سے اپنے "شریف" دوستوں کی بابت دریافت کیا
کہنے لگا۔۔ "اور گھس اپنے ان چمچوں میں ۔۔ کمینہ کوئی نہیں آیا۔۔ سارے بغیرت ہیں ۔۔تجھے ہی بڑا شوق ہے انکے ساتھ پیچا لڑانے کا۔۔ کتے سارے کے سارے"
اور میں بیٹھا مسکرا رہا تھا۔ ۔آج پہلی بار اسکے اس مزاج پر پیار آ رہا تھا۔۔ لیکن وہ بدلا بالکل بھی نہیں تھا
وہ تو شروع سے ہی ایسا تھا۔۔۔
 
ایک دفعہ کا ذکر ہے کہ ایک گاوں میں نیا شخص آیا اور اس نے اعلان کروایا کہ وہ دیہاتیوں سے ایک بندر 10 روپے میں خریدے گا۔ اس گاوں کے اردگرد بہت زیادہ بندر تھے ، سو دیہاتی بہت خوش ہوئے ، انہوں نے جال لگا کر ، کیلے رسی سے باندھ کر اور دیگر کئی طریقوں سے بندر پکڑنا شروع کئے
اس آدمی نے ایک ہزار بندر 10روپے میں خریدے ، اب بندروں کی تعداد کافی کم ہو چکی تھی ، چند ایک بندر باقی تھے جنہیں پکڑنا مشکل ہو گیا تھا ۔ یوں سمجھیں اندھا دھند فائرنگ والا معاملہ ختم ہو چکا اور ٹارگٹڈ آپریشن کی نوبت آ گئی تھی 
اس نے اعلان کیا کہ اب وہ بندر 20 روپے میں خریدے گا ، اس سے دیہاتیوں میں نیا جزبہ نیا ولولہ پیدا ہوا اور ایک دفعہ پھر انہوں نے پوری قوت سے بندر پکڑنا شروع کئے
چند دن بعد بندر اکا دکا ہی نظر آتے اور اس نئے آئے ہوئے تاجر کے ایک بڑے پنجرے میں تقریبا 1300 بندر جمع ہو چکے تھے ۔
جب تاجر نے بندروں کی خریداری میں سستی دیکھی تو اس نے فی بندر قیمت پہلے 25 روپے مقرر کی اور پھر اگلے دن قیمت 50 روپے کر دی۔ اس قیمت میں اس نے صرف 9 بندر خریدے ۔۔
اب جو بندر بھی نگاہ انسانی کی زد میں آتا ، داخل زندان کر دیا جاتا
اسکے بعد وہ کام کے سلسلے میں کسی دور دراز شہر چلا گیا اور اسکا اسسٹنٹ کام سنبھالنے لگا
اسکی غیر موجودگی میں اسکے اسسٹنٹ نے دیہاتیوں کو جمع کر کے کہا کہ :
(اے میرے عزیز دوستوں )اس بڑے پنجرے میں تقریبا 1450 جانور ہیں جو استاد نے جمع کئے ہیں۔ میں ایسا کرتا ہوں کہ تم سب کو یہ سارے 35 روپے فی بندر کے حساب سے بیچ دیتا ہوں ، جب ماسٹر آئے تو تم اسے یہ بندر 50روپے میں بیچ دینا۔
دیہاتی بہت خوش ہوئے اور انہوں نے اپنی ساری جمع پونجی خرچ کر کے بندر خرید لئے
اسکے بعد انہوں نے نہ کہیں تاجر کو دیکھا نہ ہی اسکے اسسٹنٹ کو ، بس ہر جگہ بندر ہی بندر تھے
اسے کہتے ہیں اسٹاک مارکیٹ  
صلاح الدین کی عمر پانچ سال ہے، اس سے چھوٹے لڑکے نے اسے لافہ مارا ، وہ روتے روتے چپ ہو گیا اس نے جوابی تھپڑ نہ ماراـ
وہ لڑائی جھگڑے سے دور بھاگتا ہے ، اسکے دوستوں کے مطابق وہ انتہائی ڈرپوک واقع ہوا ہے، مکھی بھی مرے تو اسکا دل زوروں دھڑکے ہے،
۔
اب
صلاح الدین کی عمر دس سال ہے اسے ماسٹر نے بہت مارا لیکن وہ مسکراتا رہا ، اس کی موٹی چمڑی پر کچھ اثر ہی نہیں ہوتا ، ماسٹر مار مار کے تھک گیا، ماسٹر نے غصہ میں اسے ماں کی گالی دی اور بالآخر پوچھا "تمہیں درد نہیں ہوتا" اس نے جواب نہ دیا اور اپنی پیٹھ دکھائی جس پر جگہ جگہ مار کے نشان تھے
اور کہنے لگا "پہلےمیرا ابامیری ماں کو بہت مارتا تھا اب میں بیچ میں آجاتا ہوں"
۔
آگے
آج پندرہ سالہ صلاح الدین اپنے پڑوس میں رہنے والے بتیس سالہ آدمی کو چاقو سے زخمی کر کے بھاگ گیا، عینی شاہدین کے مطابق غلطی اس آدمی کی تھی ،
اس نے صلاح الدین کو باپ کے نشئی ہونے کا طعنہ دیا تھا ۔
۔
کچھ مدت بعد
آج اخبار کے ایک کونے میں خبر چھپی کہ ایک بیس سالہ لڑکے نے اپنے باپ کو مبینہ طور پر قتل کر دیا ،
اسکا نام صلاح الدین بتایا گیا ہے،
اس خبر پر تبصرہ کچھ یوں تھا : آج یوم انسانیت پر اپنے سگے باپ کا قتل سمجھ سے بالاتر ہے ، بہت نا خلف اولاد تھی
۔
بالآخر
گینگ وار اور اغوا و ڈکیتی کی کئی وارداتوں میں ملوث صلاح الدین عرف بابا بھائی آج پولیس مقابلے میں مارا گیا یہ شخص ہیروئن کے تین بڑے سمگلروں اور پرائمری سکول کے دو اساتذہ کا قاتل بھی تھا
اور سپاری لے کر انکا قتل کر رہا تھا.....
۔
اس سے نتیجہ یہ اخذ ہوتا ہے کہ :
ہم اپنے شیطان خود بناتے ہیں ، اس وقت جب ہمیں پتا بھی نہیں ہوتا
اور جب ہم جان لیتے ہیں تب تک ہماری غلطی کئی چراغ گل کر چکی ہوتی ہے
آج کل کی بیویاں خاوند کو اس طرح بلاتی ہیں جیسے نکے بھائی یا بیٹے کو- اتنا بے تکلفانہ انداز کہ انجان بندہ سمجھ ہی نہیں پاتا کہ مخاطب شخص میاں ہے یا کچھ اور -
ایک خاتون بولیں میں اس "ایاز" سے بہت تنگ ہوں. پریشان کر رکھا ہے اس نے- اتنا گند ڈالتا ہے کہ کمرے کا حشر کر دیتا ہے-
ہم ہمدردی سے بولے" بس جی آج کل کی اولاد ہے ہی نکمی" -
خاتون بگڑ کر بولیں "ہائے دماغ ٹھیک ہے۔۔۔ ایاز، اولاد نہیں میری اولاد کے ابا ہیں"-
آپ ہی بتاو اب اس میں ہمارا کیاقصور ہم کو جو لگا,سو کہہ دیا-
آج کل میاں ،بیوی انتہائے محبت کا اظہار کرتے ہوئے بات چیت بھی ایسے کرتے ہیں کہ اچھا خاصا بندہ دھوکا کھا جائے ۔ معلوم ہی نہیں ہوتا کہ لاڈ بچوں سے ہو رہا کہ آپس میں-
مائی بےبی، مائی مونا ,مائی سوئٹو، شونو مونو -
ایک دفعہ شادی پرکھانے کے دوران ایک فیملی کی طرف میری کمر تھی ۔ ان میں سے ایک صاحب کہنے لگے
"بےبی تم کھانا کھاو مجھے پریشان نہ کرو "
میں نےپیچھے دیکھ کر ازراہ ہمدری کہا بھائی آپ کھانا کھالیں " بےبی "کو میں گود میں پکڑ لیتا ہوں-
بس ایک مکا پڑا۔ ۔ اس کے بعد چراغوں میں روشنی نہ رہی ۔
جب روشنی آئی تومعلوم ہوا کہ ان حضرت کی شادی ہفتہ پہلے ہوئی تھی-
آج بھی سوچتا ہوں کہ وہ بے بی کون تھیں ؟؟
تم کون!!!!!
تم نظر رکھنے والے ۔۔۔تم پرکھنے والے ۔۔تم فیصلہ صادر کرنے والے ۔۔تم میزان تھامے ہوئے میرے منہ سے نکلتے الفاظ کو تولنے والے ۔۔۔
تم میرے قدموں کی سیدھ کو ورنیئر کلیپر لے کر جانچنے والے ۔۔۔
ہاں تم ہی تو تھے!!!!
جب میری انگلیاں ستار پر رقص کر رہیں تھیں اور تاروں پر مضراب سے دھنیں پیدا ہو رہیں تھیں تو تم آنکھوں کو آدھا بند کئے محظوظ ہو رہے تھے
تم اس میٹھی موسیقی کی بہتی لہروں پر تیرتے رہتے اور بہت مسرور ہو کر چند پل کے لئے ڈوب بھی جاتے
تم بولے کچھ نہیں لیکن تمہاری زات کا زرہ زرہ" واہ۔۔ واہ" کرتا رہا ، تمہاری انگلیاں ہر بدلتی دھن کے ساتھ رانوں پر شرمندہ شرمندہ ضربیں لگاتیں۔
پھر !!!!
پھر تمہاری آنکھیں مجھے دیکھنے کو بیتاب ہوئیں ۔۔ تمہارے دل میں ملاقات کی آرزو نے جنم لیا اور تمہارے شوق کی گہرائی نے اس آرزو کی پرورش کی ۔
پھر وہ گھڑی بھی آئی !!!!!!
تم نے ہمت پکڑی اور کچھ تمہاری قسمت نے تمہارا ساتھ دیا اور تم نے نظر اٹھا کر مجھے دیکھا ۔۔۔
لیکن یہ کیا!!!!!
تم نے تو میرے چہرے پر داڑھی دیکھ لی ۔۔ اس کے بعد تمہاری فکر کا دوسرا دور شروع ہوا
تمہیں لگا کہ میں نے ستار چھو کر ظلم عظیم کیا ہے ، تم نے یہ بھی کہا کہ تمہیں مجھ سے یہ امید نہ تھی
میں نے یہ بھی تم سے سنا کہ میرا حلیہ میرے ہنر سے میل نہیں کھاتا ۔۔ نہ جانے کیوں چند ساعتوں میں تمہاری نظر مجھے گنہگار کر گئی ۔
سر پر ٹوپی رکھ کر کلاسیقی موسیقی کی دھنوں کو اپنا شوق بنانے کا اتنا بڑا انعام مجھے تم سے ملا ۔
تمہیں جھٹکا لگا جب میں نے یہ بتایا کہ میں رقص کا شیدائی ہوں ۔
رقص کا شیدائی !!!!
اسی رقص کا جس میں گھومنا ، پھر رکنا ، بیٹھنا ، پھر بازو پھیلا کر سمیٹ لینا ، آنچل لہرا کر اپنے تن سے لپیٹ لینا پھر ناز و ادا سے کھڑے ہو کر گھوم جانا ہوتا ہے
جب پیروں میں پائل ہوتی ہے کھنک کھنک کھن ۔۔ جب آنکھوں میں کاجل ہوتا ہے پتلی سلائی اور سلیقہ سے سے لگا غلاف کعبہ حیسا کالا کاجل ۔۔
تھوڑی پر تل ہوتا ہے کچھ ابھرا ہوا اور سبز رنگ کا مصنوعی تل ۔۔
اور جب ماتھے کا جھومر پہلے تو مانگ پر بیٹھا ہو اور دوران رقص گھومتے وقت بائیں جانب سرک جائے ۔۔
زرا سمجھاو تو سہی !!!!!!
تم نے کیوں مجھے فریم میں بند تصویر سمجھا ۔۔ کیوں تم نے مجھے پاک ہی سہی، لیکن شیشے میں بند ہونٹ کو ہونٹ سے جوڑے مدام آنکھیں کھولے ایک ہی نقطے کو دیکتے ہوئے مجسمے کی طرح سمجھا .
اور جب تم نے مجھے حقیقی دنیا میں ایسا پایا کہ میرے لباس پر کہیں کہیں دھول مٹی کے نشان ، میری کمر پسینے سے تر اور میرا ایک جوتا کیچڑ سے گندا تھا تو تم نے مجھے بد زوقی کا طعنہ دیا ۔۔
تمہارا گمان مجھ پر موسیقار کا تھا لیکن میری پیشانی پر کالا نشان تمہیں منافقت کا دھبہ لگا
جاو میاں جاو۔۔۔۔مجھے نیک نہ سمجھو ۔۔۔۔ کہ نیک بننا گنہگار ہونے اور منافق ہونے کا طعنہ سننے کے سوا کچھ نہیں ۔
میں نفسیاتی مریض ہونے سے زیادہ" پکا گنہگار" رہنا پسند کروں گا۔
یہ سنتے جانا !!!!
جب تمہیں موقع ملے ۔۔ جب کبھی فراغت کے چند لمحات نصیب ہوں، جب دل فکر پر مائل ہو تو سوچنا ۔
ہاں تم سوچنا کہ حسن پرست فطرت کا خالق پھولوں میں رنگ کیوں بھرتا ہے ۔
خوش بو پسندی کاشوق سرشت میں رکھنے والا رب گلاب و چنبیلی کو معطر کیوں بناتا ہے رات کی رانی کیوں اس کے امر سے اتنی پر کشش ہو جاتی ہے کہ انسان کے قدم خود بخود اسکی طرف بڑھنے لگتے ہیں ۔
کیوں وہ خوش آوازی کے رسیا کو صبح سویرے پرندوں کے نغمے سناتا ہے ، کیوں جھرنوں سے بہتے پانی میں اور سمندر کے ساحل پر موجوں میں "لے" پیدا کرتا ہے ۔۔
تم کبھی سوچنا ۔۔۔ شائد تمہیں اندازہ ہو جائے کہ میں گنہگار نہیں ۔۔۔ بس مجبور ہوں ۔۔۔