Saturday, July 30, 2016

مکتوب بنام خلیل سیفی صاحب
 22جولائی 2016۔ 
مکرمی!
دانائی زرق برق لباس کی محتاج نہیں ہوتی نہ ہی شملے و دستاریں فہم و فراست کا سرٹیفکیٹ ہو سکتے ہیں۔ وہ پیر مرد جس کو دنیا مولائے روم کہتی ہے اور جسے عشق و مستی اور دانائی و تفکر کا استعارہ سمجھا جاتا ہے انہیں یہ مقام اس شخص نے دیا جو بظاہر چرواہا نظر آتا تھا۔ 
شمس تبریز کی درویش نظر کا اعجاز تھا جو مفتی جلال الدین بلخی، مولانا روم بنے۔ کچھ تو وجہ تھی جو رومی نے قلم چھوڑ کر قدم پر چلنا شروع کیا۔ قلم نے مولانا کو عبدیت کا راستہ تو دکھایا لیکن "اس" کی یاد میں مستغرق ہونے کا چسکا نہ دے سکی ۔ علامہ اقبال صاحب کیا خوب کہہ گئے ۔۔ ع
تو سمجھتا نہیں اے زاہد ناداں اس کو
رشک صد سجدہ ہے اک لغزش مستانۂ دل

سرمد کی داستان مشہور ہے کہ جب مغل بادشاہ اورنگزیب عالمگیر اس کی جان لینے کے درپے ہوا تو سرمد کو بھرے دربار میں بلا کر کلمہ پڑھنے کو کہا گیا۔ وہاں سب جانتے تھے کہ سرمد کلمہ صرف "لا الہ " تک ہی پڑھتا ہے ۔ دربار میں موجود علماء کے بار بار اصرار پر بھی ان کے منہ سے صرف "لا الہ " نکلا۔ علماء جب شور مچانے لگے اور کافر کافر ملحد ملحد کی آوازیں آنے لگیں تو سرمد یوں گویا ہوئے  
 "ابھی میں نفی ہی سمجھنے کی کوشش کر رہا ہوں 'لا ' سے آگے بڑھوں گا تو شاید 'الا اللہ' ہاتھ آئے"۔

پھر قتل کے فتوے لگے اور زندانوں کے دہانے کھلے ۔ اک جگہ یہ بھی پڑھا ہے کہ جب جلاد تلوار سونت کر رسیوں میں جکڑے سرمد کے قریب آنے لگا تو سرمد نے فرمایا "آ جا ، تیرا ہی انتظار تھا آ جا، تم جس صورت میں جس شکل میں بھی آنے لگو میں تمہیں پہچان لیتا ہوں"۔

 سرمد کی داستانیں ہوں یا منصور کا انالحق ہو، ہر رنگ میں یہ ملنگ لوگ پراثرارہوتے ہیں۔ ان کے قریب جا کر پتا چلتا ہے کہ آزاد منش کیا ہوتا ہے ۔ ان کی صحبت انسان کو حقیقی معنوں میں حق آشنا کر دیتی ہے پھر قلب انسانی دوعالم سے بیگانہ ہوا پھرتا ہے۔ ایسے افراد کی بعض باتیں بہت عجیب لگتی ہیں کبھی کبھی بیوقوفانہ اور مضحکہ خیز بھی لگتی ہیں لیکن گہرائی میں کوئی نہ کوئی دانشمندی ضرور چھپی ہوتی ہے۔ بقول علامہ صاحب ۔۔ع 
مرد خدا کا عمل عشق سے صاحب فروغ
عشق ہے اصل حیات موت ہے اس پر حرام

 اک واقعہ یاد آتا ہے جب فدوی ایک ایسے ہی درویش سے سر راہگزر ملا۔ 
وہ گنگنا رہا تھا "میں مسرور ہوں میں مخمور ہوں ، میں مسرور ہوں میں مخمور ہوں" ۔ چلتے ہوئے یہی الفاظ بار بار دہرا رہا تھا ۔میں نے اسے چھیڑنے کی غرض سے اس سے مکالمہ شروع کیا۔

  پوچھا سرور کیا ہے؟  
فرمایا کہ یہ چڑھتا نشہ ہے
 پوچھا کہ کب حاصل ہوتا ہے؟
  فرمایا کہ جب شوق اپنی منزل پانے لگے تب حاصل ہوتا ہے 
  پوچھا شوق کی منزل کہاں ہے؟
  فرمایا خواہش کی تکمیل کی سرحد پر۔
 پوچھا کہ اس سرحد کے پار کیا ہے؟  
فرمایا خواہش کے پہاڑ پر چڑھنا سرور جبکہ وہاں سے دھیمے اور بوجھل قدموں اترنا خمار کہلاتا ہے۔ 
پوچھا کیا خمار بھی مسرور کرتا ہے؟  
فرمایا نہیں۔ سرور مسرور کرتا ہے اور خمار مخمور کرتا ہے۔


جب اس بندہ آزاد سے پوچھا کہ کوئی مثال دیجئے تو کہنے لگا:
"تھر کے صحراؤں میں سدا دھوپ کی تمازت سے جھلسنے والے خرقہ پوش جب میدانوں میں اترتے ہیں اور سبز چمن میں کھڑے ہو کر بارش کا نظارہ دیکھتے ہیں تو اپنی ایک دیرینہ "خواہش" کی تکمیل کے لئے مینہ میں بھیگنے نکلتے ہیں، اوپر آسمان سے بادل جل تھل کرتا ہے نیچے مرد صحرائی سرمستی کے عالم میں سرور کی چوٹی سر کرنے میں مصروف ہوتے ہیں۔
"تھر کے صحراؤں میں سدا دھوپ کی تمازت سے جھلسنے والے خرقہ پوش جب میدانوں میں اترتے ہیں اور سبز چمن میں کھڑے ہو کر بارش کا نظارہ دیکھتے ہیں تو اپنی ایک دیرینہ "خواہش" کی تکمیل کے لئے مینہ میں بھیگنے نکلتے ہیں، اوپر آسمان سے بادل جل تھل کرتا ہے نیچے مرد صحرائی سرمستی کے عالم میں سرور کی چوٹی سر کرنے میں مصروف ہوتے ہیں۔
اے بالک سنو۔۔ اس بارش کے پہلے قطرے سے مکمل بھیگنے تک کا عرصہ "مسرور" کرتا ہے۔ اور جب بارش تھم چکے اور بھیگے بدن سے پانی ٹپ ٹپ گرنے لگے تو یہ انہیں "مخمور" کئے ہوئے ہوتا ہے۔ "

خود انصاف کیجئے کہ میں اس وقت درویش کی بدن بولی اور اس کے لباس کثیف پر نظر کرتا یا اس کی لب کشائی کے دوران بکھرتے گلاب سمیٹتا؟ علیم صبا نویدی صاحب نے کیا خوب کہا ہے ۔۔ ع
میں اندھیرا تھا تو پس منظر میں پھر
ضو فشاں، اندر یہ منظر کون تھا

دیکھیں خلیل صاحب !!! وہ لوگ جو بظاہر کچھ نظر نہیں آتے اندر سے آتش فشاں ہو سکتے ہیں ، وہ درویش جو عیش وعشرت سے بیگانہ معلوم ہوتا تھا وہ مسرور و مخمور کی سدا لگاتے ہوئے لمحہ لمحہ مزے میں تھا ، پل پل اس کا وجود تھیا تھیا کر رہا تھا ۔ اس لئے کسی شخص کی زبان کھلنے تک اور پھر اس کے کھل کر سامنے آ جانے تک کسی کے بارے میں فیصلہ دینا حماقت ہوتی ہے ۔ آپ دارالعلوم میں پڑھتے ہیں اور آپ کے ہاں علم کا ایک مخصوص یونیفارم ہوتا ہے ۔ایک مخصوص طریق اور ایک سدھرا اور سلجھا ہوا مزاج ہوتا ہے ،آپ میں ایک بات دیکھی کہ آپ کسی باہر والے کو کم علم تو سہی لیکن کم فہم نہیں سمجتے، اور میرے نزدیک یہی آپ کی سب سے بڑی خوبی ہے ۔ جب تک وقت چاہے گا ہم ساتھ رہیں گے اور جب وقت درمیان میں فاصلے ڈال دے گا اور مصروفیات و سرحدات کی دیواریں حائل کر دے گا تب یادوں پر اکتفا کر لیا کریں گے۔ دعا ہے کہ آپ جہاں رہیں خوش رہیں اور سدا مسکراتے رہیں ۔

Monday, October 12, 2015

بسم اللہ الرحمٰن الرحیم ۔
سب سے پہلے مشیت کے انوار سے نقش روئے محمد ﷺ بنایا گیا
پھر اسی نقش سے لے کے تابانیاں بزم کون ومکاں کوسجایا گیا۔
آدم ؑ نے اللہ سے پوچھا کہ محمد ﷺکون ہیں؟ تو انہیں یہ جواب ملا کہ کہ محمد ﷺانکی اولاد سے ہی ہونگے اور اگر انکی تخلیق اور بعثت و رسالت مقصود نہ ہوتی تو یہ کائنات و انسان ، سلسلہ تقدیر و تدبیر ، گردش اجرام فلکی ، روشنی و اندھیرے کا الٹ پھیر اور کشمکش ابلیس و ابن آدم قصہ پارینہ رہتے ۔
خیمہ افلاک کا ایستادہ اسی نام ہے
نبض ہستی تپش آمادہ اسی نام سے ہے
محمد ﷺ وجہہ تخلیق کائنات تھے ۔اللہ نے اپنے حبیب کو نقش اول کیا اور تا ابد مقام اول عطا فرما دیا۔
انکی پیدائش حالت یتیمی میں ہوئی اور چھ سال کی عمر میں انکی والدہ بھی خالق حقیقی سے جا ملیں ۔
انہی یتیم و مسکینﷺ سے دنیا میں یتیموں اور بیواوں کے حقوق قائم کرنے تھے ، انہی اُمیﷺ سے جہان جہالت کی تاریکیوں کو نور علم سے روشن و منور کرنا تھا۔
والدہ ماجدہ کی رحلت کے بعد دادا عبدالمطلب اور چچا ابو طالب کے زیر سرپرستی رہے۔
چچا ابو طالب کی بکریاں چراتے تھے کہ اللہ نے انہیﷺ سے مویشی صفت بدووں کے ریوڑ کو صراط مستقیم پر لانا تھا ۔
محمد ﷺ کا بچپن کیا تھا گویا اللہ نے خاردار جھاڑیوں کے درمیان پھول پیدا فرما دیا تھا ۔ جہاں ماحول جھوٹ و زنا سے بھرا تھا وہاں محمد ﷺ صداقت کا مینار اور حیا کے پیکر تھے ، جہاں جوا اور شراب دن رات کی دل لگی تھی وہاں محمدﷺ غریبوں کی مدد کرنے والے ، بوڑھوں کا بوجھ اٹھانے والے تھے ۔ جس معاشرے میں اپنے سگے بھائی کو امانت دینا بے وقوفی خیال کیا جاتا تھا اس معاشرے میں محمد ﷺ امین کے لقب سے مشہور ہوئے ۔ جہاں سوائے باپ کے نام کے ہر بات جھوٹ بولنا فن سمجھا جاتا تھا وہیں پر محمد ﷺ صادق گردانے گئے۔جہاں ہاتھوں سے بنائے ہوئے اصنام کو خالق بتایا جاتا تھا اسی ماحول میں پروان چڑھنے والے محمد ﷺ بتوں کے سامنے نہ جاتے تھے ۔ انہوں نے ہمیشہ بت پرستی کو جہالت و نادانی ہی سمجھا۔
نبوی اخلاق شروع سے ہی اپنا آپ دکھلا رہے تھے ۔ اپنی شرافت و دیانت کی بنا پر قریش کی ایک مالدار خاتون خدیجہؓ نے آپکو نکاح کا پیغام بھجوایاجو آپ نے قبول فرما لیا ۔ ایک زمانہ انکے عدل کا معترف ہوا جب انہوں نے حجر اسود کو اپنی چادر پر رکھ کر تمام قبائل کے سرداروں سے چادر اٹھوائی اور خود اسے نصب کر کے عرب کو بڑی خونریزی سے بچا لیا۔ انکا بول محبت والا اور عادتیں تمیز و اخلاق سے لبریز ہوتیں۔ ہر مکی قریشی دیکھتا کہ روزانہ انکی تعریف کی لڑی میں اعلی اخلاق و کردار کے نئےدانے پروئے جاتے ۔ انکے پاس اپنی امانت رکھوانے کے بعد ہرکوئی سکون میں آ جاتا ۔
بے شک نبیﷺ کا باطن اور انکی روح انتہا سے پرے اور حدود سے لا تعلق حد تک شاندار تھی۔انکا ظاہری حسن و جمال تخیل سے ماورا حد تک حسین تھا۔ وہ رخ زمین پر آفتاب کو شرمسار کرتے پھرتے تھے۔انکے جمال کو حسن یوسف سے تشبیہ دینا سورج کو چراغ دکھانے کے مترادف ہے ۔ انسان کے بنائے ہوئے الفاظ نے ابھی تک اتنی جامعیت حاصل نہیں کی کہ انکے حسن و کردار کی ایک جھلک کا بھی حق ادا کر سکے ۔ آسمانی الفاظ مدثر ، مزمل ، شمس الضحی ،بدر الدجی، نور الہدی ، صدر العلی، سید المرسلین ، رحمتہ اللعالمین ، بشیر و نذیراور سراج منیر بھی محمدﷺکو بیان کرتے ہوئے تشنہ ہی رہتے ہیں ۔
تنہائی انسان میں تفکر کا مادہ پیدا کرتی ہے ۔ محمد ﷺ اکثر غار حرا میں تشریف لے جاتے اور وہاں سے بیت اللہ کا نظارہ کرتے۔ چالیس برس کی عمر میں جبرائیل امین ان پر پہلی وحی لے کر اترے ۔ اور اس عظیم ذات کے عظیم قران کی وہ آیتیں محمد ﷺ کے قلب اطہر پر نازل فرمائیں کہ اگرپہاڑ پر نازل کیں جاتیں تو وہ ریزہ ریزہ چورا چورا ہو جاتا ۔
اللہ نے لا ریب کامل دین کو دنیا میں پھیلانے اور مخلوق کا دربار الہی سے رابطہ جوڑنے کی زمہ داری محمد ﷺ پر ڈالی ۔ محمد ﷺ نے اپنے قریبی افراد کو دعوت اسلام دینے کے بعد عام اعلان نبوت فرمایا۔ کوہ صفا جو قریش مکہ کا مقام ِمنادی تھا، پر پہنچ کر سب کو پکارا۔ انہیں جمع کر کے ان کے سامنے اپنے آپ کو پیش کیا اور پوچھا کہ اے لوگو!!!
میں تمہارے ساتھ تمہارے درمیان رہا ہوں تم نے مجھے کیسا پایا؟
یہ لمحہ، مصطفوی جدوجہد کامرکزی نقطہ ثقل اور نازک ترین لمحہ تھا۔وہ قریشی اور عربی بدو کہ غیبت جن کا مشغلہ ہوا کرتا تھا،اگر اس لمحے ان میں سے کوئی شخص بھی محمد ﷺ کی چالیس سالہ زندگی میں ایک بھی غلطی ، کمی ،کوتاہی ، کجی ، دل آزاری ، بے ادبی ، بد اخلاقی یا فحش گوئی کا بتا سکتا تا تو یہ تحریک اپنی شان کھو دیتی ۔ اس مجمعے میں موجود ہر شخص نے بہت تخیل کے گھوڑے دوڑائے ، بہت سوچا ، بہت اپنے مغز ریشوں کو حرکت دی ، بہت اپنے ماضی کو ٹٹولا لیکن کوئی بھی محمد ﷺ کی چالیس سالہ زندگی میں ایک بھی عیب نہ ڈھونڈ پایا۔ محمد ﷺ کے اس سوال نے سب پر خاموشی طاری کر دی پھر محمد ﷺ نے اپنی صداقت کی گواہی پر تصدیق کے بعد انکے سامنے سچے دین کو پیش کیا۔ بڑی مدت سے فضائیں لا الہ الا اللہ کو سننے کے لئے تشنہ تھیں ۔ ہوائیں تو سیراب ہوئیں لیکن کچھ بد بخت دل ابھی بھی ایمان و ہدایت کے لئے مقفل تھے ۔ ابھی اللہ نے اپنے محبوب کو یہ قفل کھولنے کی ساری کنجیاں عطا نہ کی تھیں، ابھی تو قران کی چند ہی آیات اتری تھیں۔ آگے بہت سے انقلابات چشم فلک نے دیکھنے تھے۔
اس اعلان نبوت نے قریش مکہ کے رویوں کو یکسر بدل دیا۔ جن بوڑھوں کے کندھوں کا بوجھ محمد ﷺ اٹھاتے اب رسالت مآبﷺ کو ایذا رسانی ان ہی بوڑھوں کا ہدف ٹھرا ۔جو لب نبی ﷺ کو صادق وامین کہتے وہی اب دشنام طرازی پر اتر آئے۔ جو نگاہیں نبیﷺ کے احترام میں جھکتی تھیں اب وہی گھورنے لگیں تھیں۔ جن زبانوں پرپہلے تعریفیں تھیں وہی اب نوک خنجز بنی ہوئی تھیں۔ محمد ﷺکے استقلال کی سب سے بڑی آزمائش ان کی بیٹیاں تھیں جن کا نکاح اعلان نبوت کے بعد مشرکین نے منسوخ کر دیا تھا ۔اس پُر آزمائش دور میں جانثار دوست ابو بکر صدیقؓ ، چچا ابو طالب اور اہلیہ خدیجؓہ نے انکا بھرپور ساتھ دیا۔
چچا اور اہلیہ کی وفات کے بعد انکی پریشانیوں میں اضافہ ہوا اور قریش کی طرف سے سختیاں مزید بڑھ گئیں ۔ غرضیکہ نبوت کے بارہ سال بڑی کسمپرسی کی حالت میں گزرے۔ اسلام کی دعوت روکنے کا ہر حربہ آزمایا، واقعہ معراج پر مذاق اڑایا، شعب ابی طالب کے دو سال میں شقاوت قلبی کی نمائش جاری رکھی، ایذارسانی کی ، قریش اتنے احمق تھے کہ سلطان السلاطین کو سرداری کا لالچ دیتے ، بلال کے آقا کو مال کا لالچ دیتے، حوروں کی بشارت دینے والے کو عورتوں کا لالچ دیتے۔نہ وہ عمدہ اخلاق سے راہ راست پہ آئے ، نہ ہی چاند کو دو ٹکڑے ہوتے دیکھ کر انکی عقل جاگی ۔ہجرت پر مجبور کیا گیا طائف کے شہر میں لہو لہان ہو کر بھی خلق عظیم امت کے لئے ہدایت کی دعا مانگتے رہے۔اور کیا ہی نبیﷺ تھے جو اپنے پیروں پر جما خون صاف کرتے ہوئے بھی ہدایت کی دعا دیتے۔کیا ہی نبی تھے کہ جن سے مجنون کے الفاظ سنتے، انہی کی امانتیں رکھنا قبول کرتے۔ محمد ﷺکے کیا ہی ساتھی تھے جو خود پر ہر سختی برداشت کرتے اور نبیﷺ کو ایک کانٹا بھی لگتا تو مضطرب ہو جاتے ۔ ہر طرف سے، ہر قیمت پر کثرت قلت کو مٹانے کی طالب تھی ۔ نور خدا کفر کی حرکتوں پر خندہ زن تھا جو پھونکوں سے سراج منیر کو بجھانے کا خواہاں تھا۔ جیسے جیسے نبیﷺ کی محفل میں بلالوں ، فاروقوں ، ابوزروں اور ابودجانہ جیسے جانثاروں کا اضافہ ہوتا جاتا ویسے ویسے کفار مکہ کی ناک سے نکلتے دھویں میں بھی اضافہ نظر آتا۔ عرصہ حیات تنگ ہوا تو نبیﷺ نے ہجرت کے لئے رخت سفر باندھا اور مدینہ کی طرف رات کے اندھیرے میں چل نکلے ۔
خاتم النبیین ﷺ نے صدیق ؓ کو رفیق بنایا ۔ اور علی ؓ کو امین بنایا ۔ ہجرت کے سفر کے دوران بھی راہگزر پار کرتے ہوئے محمد ﷺنے انعام کی لالچ میں نکلے ہوئے سراقہ بن جعشم کو کسری کے کنگن عنایت کئے۔ سراقہ نے آخر تک اسے مزاق ہی سمجھا کہ بے سروسامانی کے عالم میں خوف کے مارے رات کو سفر کرنے والے محمد ﷺانکو عالمی طاقت کے کنگن کا مالک کیسے گردانتے ہیں ۔بعد میں وقت نے اسے سچ ثابت کر دیا اور کسری کے کنگن اسی کے حوالے کئے گئے۔
مدینہ میں پہنچ کر محمد ﷺ نے مواخات یعنی بھائی چارے کے نام سے نئی مثال قائم کی۔ نبی ﷺنے رشتہ جوڑنا سکھایا۔آپ ﷺ نے بھائی ہونے کے نئے پیمانے وضع کئے۔ یہ بھائی چارا" لا الہ "کی بنیاد پر بنا۔
انہوں نے جانوروں ، غلاموں اور ماتحتوں کے حقوق بتائے۔ انہوں نے خواتین کو پیر کی جوتی سے اٹھا کر عفت و عظمت کا استعارہ بنایا۔ گری پڑی انسانیت ، جو درہم و دینار سے زیادہ اہمیت نہیں رکھتی تھی، محمد ﷺ نے حقیقی معنوں میں اسے اس قابل بنایا کہ اشرف المخلوقت کا لفظ اس پر جچ سکا۔
انہوں نے یتیموں پر شفقت کرنا، بیواوں کی مدد کرنا، بے کسوں کی داد رسی کرنا، بیوی کو عزت دینا، اولاد کو محبت دینا ، انسان کی تربیت کرنااور آہ گرم و سرد کو پہچان لینا سکھلایا۔انسان کو مقام انسانیت تک لانا ہی انکی شریعت کا اصل ہوا۔اولاد آدم پر احسان نبوی جاری تھے کہ زمانے کے فرعونوں نے طبل جنگ بجانے پر آمادگی ظاہر کی۔مشرکین مکہ اپنی افرادی طاقت اور اسلحے کی فراوانی پر اتراتے ہوئے میدان بدر میں اترے ۔ ادھر رسول اللہ خاصہ بشریت یعنی صحابہ کی جماعت کو لے کر حق و باطل کی پہلی بالمشافہ جنگ میں پہنچے ۔ جنگ کیا تھی اک بے جوڑ مقابلہ تھا۔ ایک ہزارمرے ہوؤں کے مقابل تین سو تیرہ زندہ صحابہ تھے۔بازوؤں کی کی قوت اور تیر و نشتر کی نمائش سے کاروان حق کب تھما تھا۔بھائی بھائی کے سامنے تھا، چچا بھتیجا سامنے تھے ، ماموں بھانجا سامنےتھے۔ دوست یار عزیز سب سامنے ہو کر بھی اجنبی تھے۔نہ ہی ماضی کی دوستی آڑے آئی نہ ہی شِیر مادر کیونکہ صحابہ کے رشتوں ناطوں بندھنوں اور تمام تعلقات کی بنیاد" لا الہ الا اللہ" پر تھی ۔
نتیجہ جنگ کا یہ نکلا کہ قریش مکہ کا غرور و تکبر ان کے چوٹی کے سرداروں کی آنکھوں سے خون بن کر بہا اور بدر کی زمیں میں جذب ہو گیا۔
معاز و معوز کہ جن سے انکے والد نے ابھی تک فصل نہیں کٹوائی تھی وہ حب نبیﷺمیں قریشی سرداروں کے سر کاٹ رہے تھے ۔
نبی کے حکم پر صحابہؓ نے بدر کے قیدیوں سے عجیب انتقام یہ لیا کہ بغیر کسی جبر کے فقط اخلاق کی تلوار سے ان کے اندر کا شیطان مار ڈالا۔محمد ﷺ نے یہاں قیدیوں کے حقوق اور تعلیم کی ضرورت دونوں بتلا دیں۔ احد کے میدان میں پھر حق و باطل نبرد آزما ہوئے ۔ حق پھر بھی قائم رہا، نہ کمزور ہوا، نہ جھکا، نہ جھجھکا ۔ مجاہد نبیﷺ خود تیر کھینچتے ، تلوار چلاتے۔ اور مجاہد نبیﷺ کے مجاہد صحابہ ؓ انکی طرف آنے والے ہر تیر کو اپنے سینے پر اعزاز سمجھ کر سجاتے اور جہاد فی سبیل اللہ کی نئی جہتیں سمجھاتے اور نئی حدیں اپنے خون سے متعین کرتے۔ احد کے بعد کئی لشکر (احزاب) مدینہ پر چڑھ آئے۔خندق کے اندر مدینہ شہر کا دفاع کرتے ہوئے بیک وقت اندرونی اور بیرونی لشکر سے جنگ کرتے ہوئے ابن خلیل اللہ ﷺ اور صحابہؓ نے استقلال کی روشن مثال قائم کی ۔ اللہ کے نبی غازی رہے اور لشکر کفار پھر پسپا ہوا۔حب محمد ﷺاور شوق شہادت میں صحابہ نے خیبر کے قلعوں کے دروازے اکھاڑ دیئے۔جو لکڑی ممبر بننے کے قابل نہیں ہوتی اسے سولی بنا دیا جاتا ۔ نبیﷺ کے معجزات ساتھ ساتھ نظر آتے۔ ماضی میں جس لعاب سے زم زم کا چشمہ ابل پڑاتھا اسی لعاب سے چشم علی ؓ شفا پا گئی۔کبھی ماضی میں نبیﷺ کے ہاتھ لگنے سے بکری کے تھنوں میں دودھ آ گیا تو کبھی انکی انگلیوں کے چھونے سے ایک پیالہ پانی تمام لشکر کو کافی ہو گیا۔پھر وہ دن بھی آیا کہ جب محمد ﷺمکہ میں فاتح کی حیثیت سے داخل ہوئے ۔ قریش مکہ کے چہروں پر خوف امڈ آیا۔ مارے خوف کے خون یوں خشک ہوا گویا کاٹو تو خون نہ نکلے۔ والدین بچوں کو یوں دیکھتے گویا آخری بار ہی دیکھنا ہے ۔ کہیں کونے میں بیٹھا بوڑھا کئی سال پیچھے پہنچا اپنے ظلم یاد کر رہا تھا۔ بلالؓ کو تپتی ریت پر لٹا کر کمر پر پتھر کن لوگوں نے رکھے ؟ سمیہؓ کے ساتھ کیا ہوا ؟ نبیﷺ کو پتھر کس نے مارے؟مجنون کس نے کہا؟ بیت اللہ میں نبی ﷺ کی کمر پر اوجھڑی کس نے ڈالی؟
ابھی قریشی انہی یادوں کو تازہ کر رہے تھے اور اپنی موت کا ، اپنے گھروں کے جلائے جانے کا، اپنے بچوں کے زبح ہونے کا اور اپنی لاشوں کے مثلہ ہونے کا انتظار کر رہے تھے کہ انکی خاموشی کو ساقی کوثرﷺ کے ایک اعلان نے توڑا۔ سارے مکے میں منادی کرا دی گئی کہ آج عام معافی کا دن ہے۔
محمد ﷺنے کیا کیا معاف کر دیا؟ ماضی کے تمام ظلم و ستم معاف۔جبر معاف۔ شعب ابی طالب معاف۔ دشنام طرازی معاف۔احد میں حمزہؓ کا خون معاف۔ نبی کے دندان مبارک شہید کرنا معاف۔ احزاب میں یہودیوں کے ساتھ کیا گٹھ جوڑ معاف غرض سب کچھ معاف۔شافع محشر ﷺ نے امت کو اپنے شفاعت کرنے کا ایک نمونہ ،محبت کی صورت میں دنیا میں ہی دکھا دیا۔
ایک بار پھر حق غالب آ یا اور باطل مٹا ۔ بے شک باطل ہے ہی مٹ جانے والا۔
اللہ اکبر کی صدا بلند ہوتی اور بیت اللہ سے مخلوق خداوندوں کے پیکر خاک میں خاک ہوتے جاتے۔بیت اللہ نے اذان بلالیؓ سے اپنی فضا کو معطر پایا ۔نبی ﷺ کے قدموں سے اپنے در و دیوار منور پائے۔ صحابہؓ کے طواف سے اپنی عظمت رفتہ واپس بحال دیکھی۔ قریش مکہ جوق در جوق آتے جاتے اور پیمانہ ایمان، بدست سرور کائنات ﷺ لے کر مشرف بہ اسلام ہوتے فتح مکہ کے بعد دین اسلام تیزی سے پھیلنے لگا ، پہلے حج کے موقع پر ایک لاکھ پچیس ہزار افراد نے نبی کی معیت میں حج ادا کیا یہ نبیﷺ کی تیئس سالہ محنت کا پھل تھا ۔ دین اسلام رب کی مہربانیوں کا مظہر ، نبی کی محنت اور شہیدوں کے خون کی امانت ہے ۔ آخری حج کے موقع پر نبیﷺ نے خطبے میں دین کا خلاصہ پیش کیا۔ تمام انسانوں کو آدمؑ کی اولاد اور برابر حقوق و فرائض والا بتایا ۔ آپ ﷺ نے جاہلیت کےبنائے ہوئے اعلی و ادنی کے معیار ختم کر کے مساوات کا درس دیا۔رنگ و نسب کے غبار کو مرغ حرم کی بلندی میں حائل رکاوٹ بتلایا۔انہوں نے انسانیت کو" لا الہ کی دعوت دے کر" خاک سے اٹھایا ، "طبل جنگ سے" جسم انسانی پر لگی خاک کو جھاڑا، "کردار سازی کر کے "اسکو کھڑا کیا اور "ایمان کے جوہر سے" اسے اوج ثریا پر پہنچایا ۔
انہوں نے اپنی ذات پر دوسری بار گواہی تمام صحابہ سے گواہی لی کہ کیا دین ان تک پہنچا دیا گیا۔ صحابہ نے جواب دیا آپﷺ نے پہنچا دیا اور حق ادا کر دیا۔
نبی ﷺ نے اپنا مقصد رسالت پورا کر دیا ۔ اور اس جہان فانی کو چھوڑ کر جہان ابدی کی طرف کوچ فرمایا۔
یہ انکی تربیت کا ہی شہکار تھا کہ ان عربیوں کو ، جو زمین کے ایک ٹکڑے پر صدیوں جھگڑتے تھے ، انہیں عالمگیریت کے درجے پر پہنچایا ۔ بکرو تغلب کے قبیلوں جیسی لڑائیاں لڑنے والوں کو روم و فارس کی حکومت ملی ۔ جب یونان کا دیا ٹمٹمارہا تھا تو دنیائے علم کے چراغ انہی صحرا نشین امیوں نے اپنی شمعوں سے جلائے ۔وہ جو خاکی فرش اور لاجوردی شامیانے کے حامل ہو کر بھی فخر جہاں تھے۔
محمد۔۔انہی کے سر لولاک کا تاج ہے ، انہی کو فقط فخر معراج ہے ،وہی جو ایک کمان کے فاصلے تک پہنچے ، وہی کہ دنیا میں امت کی فکر میں اپنی دونوں شمعیں جوئے خون سے فروزاں کئے رہتے، وہی جو یوم قیامت یارب امتی، یارب امتی پکاریں گے ۔ان پر لاکھوں کروڑوں درود و سلام کہ جن کے ہاتھوں میں جام کوثر ہو گا، کہ جن کے پاس جنت کی کنجی ہو گی ، کہ جو مقام محمود پر فائز ہونگے ، کہ جوشفاعت کے لئے اپنی اور تمام انبیا کی امتوں کا واحد سہارا ہونگے، کہ جنکے ہاتھ اسلام کا جھنڈا ہو گا۔ ۔
الغرض ۔ انکی شریعت کا حکم مانع ہے ورنہ وہ بہت کچھ ہیں۔چھتیس الفاظ کے ساتھ آقائے دو جہاں کی عظمت بیان کرپانا خام خیالی نہیں تو اور کیا ہے۔۔
اللہ رب العزت سے دعا ہے کہ ہمیں اپنے نبی کے صدقے ویسا بنا دیں جیسا ہمارے نبی ہمیں دیکھنا پسند کریں۔ اور بے شک ہمارے نبی کی پسند کسی صورت کم نہ ہو گی ۔
آمین۔

ثاقب الرحمن کراچی ۔ 
فیس بک 8اکتوبر تا 11 اکتوبر چلنے والے عالمی مضمون نگاری بہ عنوان "سیرت النبی" کے لئے لکھا گیا مضمون۔

Tuesday, September 01, 2015

کمینہ دوست ۔۔

بلال میرا پکا دوست تھا۔جتنا وہ پکا دوست تھا اتنا ہی اس میں کمینہ پن بھی بھرا تھا۔بچپن میں ہم چھوٹے غباروں کو پانی سے بھر دیتے اور گھات لگا کر محلے والوں پر پھینک دیتے جس سے غبارہ پھٹ جاتا اور ہم اپنی چپل بغل میں دبا کر یوں بھاگتے کہ آندھیاں شرمندہ ہو جاتیں۔۔۔
یوں سمجھئے کہ بلال دوست نہیں تنقید کے پانی سے بھرا ایک غبارہ تھا جو ہر وقت گھات میں ہوتا تھا۔پھٹنے کو تیار۔۔۔
میں اپنے دیگر "شریف" دوستوں کے ساتھ بیٹھا عقل کی گتھیاں سلجھانے میں مشغول تھا۔ کبھی شیخ سعدی پر بات ہوتی کبھی
رومی زیر دام آتے ، نیوٹن اور آئن سٹائن تو گویا ساتھ ہی بیٹھے رہتے ۔۔ایسے پر علم اور پر رونق ماحول میں بروں کی شامت سے بلال کہیں سے ٹپک پڑا (نازل ہوا) ۔
اوئے بغیرت تو یہاں انڈے دے رہا ہے وہاں تیری امی محلے کے لڑکوں سے دودھ دہی ، روٹی منگوا رہی ہے
شرم تو تجھ میں زرابھی نہیں ۔۔ کوئی شرم ہوتی ہے کوئی حیاء ہوتی ہے ۔۔ اس سے پہلے کہ میرا جوتا اسکے سر کو چومتاوہ فوراََ
آندھی ہو گیا۔ دہی تو محلے والا لے ہی آیا تھا، ادھر بلال نے عزت کی دہی کو لسی بنا دیا تھا۔۔
یہ کوئی واحد مثال نہ تھی رنگ میں بھنگ ڈالنا اسکی طبیعت میں شامل تھا۔۔
چند دن بعد جمعرات والے دن میں چھت سے پتنگ اڑاتے ہوئے گر گیا۔۔
جمعرات والے دن اکثر گھروں میں کپڑے دھوئے جاتے ہیں جو بعد میں چھت پر سکھائے جاتے ہیں ۔
مجھے اتنا یاد ہے کہ میں چھت پر کھڑا تھانظر کچھ ڈگمگائی تو ساتھ ہی قدم بھی ڈگمگا گئے۔۔ لرزش لغزش ہو گئی اور اسکے بعد چراغوں میں روشنی ہی نہ رہی ۔۔ آنکھ کھلی تو پتا چلا کہ ہسپتال میں موجود ہوں ۔دائیں طرف جوس کے کچھ ڈبے دیکھ کر سارا غم نکل گیا اور دل باغ باغ ہو گیا۔ بائیں طرف کا منظر کچھ اور ہی تھا۔۔۔
بلال اس طرف بنچ پر بیٹھا تھا اور اسکا سر میرے سینے کے برابر ہی بستر پر پڑا تھا ۔ ساتھ ہی اسکےسسکی لینے کی آواز بھی آ رہی تھی ۔۔ نہ جانے کب سے بیٹھا تھا۔ کب سے رو رہا تھا۔۔ کیا یہ وہی بلال تھا۔۔
وہ لمحات بھی گزر گئے ، آج تک بلال نہیں جانتاکہ میں نے اسکی سسکیاں سن لی تھیں ۔۔
اگلے دن سب صحیح ہو چکا تھا صرف 7 ٹانکے آئے تھے ۔ میں نے بلال سے اپنے "شریف" دوستوں کی بابت دریافت کیا
کہنے لگا۔۔ "اور گھس اپنے ان چمچوں میں ۔۔ کمینہ کوئی نہیں آیا۔۔ سارے بغیرت ہیں ۔۔تجھے ہی بڑا شوق ہے انکے ساتھ پیچا لڑانے کا۔۔ کتے سارے کے سارے"
اور میں بیٹھا مسکرا رہا تھا۔ ۔آج پہلی بار اسکے اس مزاج پر پیار آ رہا تھا۔۔ لیکن وہ بدلا بالکل بھی نہیں تھا
وہ تو شروع سے ہی ایسا تھا۔۔۔
 
ایک دفعہ کا ذکر ہے کہ ایک گاوں میں نیا شخص آیا اور اس نے اعلان کروایا کہ وہ دیہاتیوں سے ایک بندر 10 روپے میں خریدے گا۔ اس گاوں کے اردگرد بہت زیادہ بندر تھے ، سو دیہاتی بہت خوش ہوئے ، انہوں نے جال لگا کر ، کیلے رسی سے باندھ کر اور دیگر کئی طریقوں سے بندر پکڑنا شروع کئے
اس آدمی نے ایک ہزار بندر 10روپے میں خریدے ، اب بندروں کی تعداد کافی کم ہو چکی تھی ، چند ایک بندر باقی تھے جنہیں پکڑنا مشکل ہو گیا تھا ۔ یوں سمجھیں اندھا دھند فائرنگ والا معاملہ ختم ہو چکا اور ٹارگٹڈ آپریشن کی نوبت آ گئی تھی 
اس نے اعلان کیا کہ اب وہ بندر 20 روپے میں خریدے گا ، اس سے دیہاتیوں میں نیا جزبہ نیا ولولہ پیدا ہوا اور ایک دفعہ پھر انہوں نے پوری قوت سے بندر پکڑنا شروع کئے
چند دن بعد بندر اکا دکا ہی نظر آتے اور اس نئے آئے ہوئے تاجر کے ایک بڑے پنجرے میں تقریبا 1300 بندر جمع ہو چکے تھے ۔
جب تاجر نے بندروں کی خریداری میں سستی دیکھی تو اس نے فی بندر قیمت پہلے 25 روپے مقرر کی اور پھر اگلے دن قیمت 50 روپے کر دی۔ اس قیمت میں اس نے صرف 9 بندر خریدے ۔۔
اب جو بندر بھی نگاہ انسانی کی زد میں آتا ، داخل زندان کر دیا جاتا
اسکے بعد وہ کام کے سلسلے میں کسی دور دراز شہر چلا گیا اور اسکا اسسٹنٹ کام سنبھالنے لگا
اسکی غیر موجودگی میں اسکے اسسٹنٹ نے دیہاتیوں کو جمع کر کے کہا کہ :
(اے میرے عزیز دوستوں )اس بڑے پنجرے میں تقریبا 1450 جانور ہیں جو استاد نے جمع کئے ہیں۔ میں ایسا کرتا ہوں کہ تم سب کو یہ سارے 35 روپے فی بندر کے حساب سے بیچ دیتا ہوں ، جب ماسٹر آئے تو تم اسے یہ بندر 50روپے میں بیچ دینا۔
دیہاتی بہت خوش ہوئے اور انہوں نے اپنی ساری جمع پونجی خرچ کر کے بندر خرید لئے
اسکے بعد انہوں نے نہ کہیں تاجر کو دیکھا نہ ہی اسکے اسسٹنٹ کو ، بس ہر جگہ بندر ہی بندر تھے
اسے کہتے ہیں اسٹاک مارکیٹ