Monday, October 12, 2015

بسم اللہ الرحمٰن الرحیم ۔
سب سے پہلے مشیت کے انوار سے نقش روئے محمد ﷺ بنایا گیا
پھر اسی نقش سے لے کے تابانیاں بزم کون ومکاں کوسجایا گیا۔
آدم ؑ نے اللہ سے پوچھا کہ محمد ﷺکون ہیں؟ تو انہیں یہ جواب ملا کہ کہ محمد ﷺانکی اولاد سے ہی ہونگے اور اگر انکی تخلیق اور بعثت و رسالت مقصود نہ ہوتی تو یہ کائنات و انسان ، سلسلہ تقدیر و تدبیر ، گردش اجرام فلکی ، روشنی و اندھیرے کا الٹ پھیر اور کشمکش ابلیس و ابن آدم قصہ پارینہ رہتے ۔
خیمہ افلاک کا ایستادہ اسی نام ہے
نبض ہستی تپش آمادہ اسی نام سے ہے
محمد ﷺ وجہہ تخلیق کائنات تھے ۔اللہ نے اپنے حبیب کو نقش اول کیا اور تا ابد مقام اول عطا فرما دیا۔
انکی پیدائش حالت یتیمی میں ہوئی اور چھ سال کی عمر میں انکی والدہ بھی خالق حقیقی سے جا ملیں ۔
انہی یتیم و مسکینﷺ سے دنیا میں یتیموں اور بیواوں کے حقوق قائم کرنے تھے ، انہی اُمیﷺ سے جہان جہالت کی تاریکیوں کو نور علم سے روشن و منور کرنا تھا۔
والدہ ماجدہ کی رحلت کے بعد دادا عبدالمطلب اور چچا ابو طالب کے زیر سرپرستی رہے۔
چچا ابو طالب کی بکریاں چراتے تھے کہ اللہ نے انہیﷺ سے مویشی صفت بدووں کے ریوڑ کو صراط مستقیم پر لانا تھا ۔
محمد ﷺ کا بچپن کیا تھا گویا اللہ نے خاردار جھاڑیوں کے درمیان پھول پیدا فرما دیا تھا ۔ جہاں ماحول جھوٹ و زنا سے بھرا تھا وہاں محمد ﷺ صداقت کا مینار اور حیا کے پیکر تھے ، جہاں جوا اور شراب دن رات کی دل لگی تھی وہاں محمدﷺ غریبوں کی مدد کرنے والے ، بوڑھوں کا بوجھ اٹھانے والے تھے ۔ جس معاشرے میں اپنے سگے بھائی کو امانت دینا بے وقوفی خیال کیا جاتا تھا اس معاشرے میں محمد ﷺ امین کے لقب سے مشہور ہوئے ۔ جہاں سوائے باپ کے نام کے ہر بات جھوٹ بولنا فن سمجھا جاتا تھا وہیں پر محمد ﷺ صادق گردانے گئے۔جہاں ہاتھوں سے بنائے ہوئے اصنام کو خالق بتایا جاتا تھا اسی ماحول میں پروان چڑھنے والے محمد ﷺ بتوں کے سامنے نہ جاتے تھے ۔ انہوں نے ہمیشہ بت پرستی کو جہالت و نادانی ہی سمجھا۔
نبوی اخلاق شروع سے ہی اپنا آپ دکھلا رہے تھے ۔ اپنی شرافت و دیانت کی بنا پر قریش کی ایک مالدار خاتون خدیجہؓ نے آپکو نکاح کا پیغام بھجوایاجو آپ نے قبول فرما لیا ۔ ایک زمانہ انکے عدل کا معترف ہوا جب انہوں نے حجر اسود کو اپنی چادر پر رکھ کر تمام قبائل کے سرداروں سے چادر اٹھوائی اور خود اسے نصب کر کے عرب کو بڑی خونریزی سے بچا لیا۔ انکا بول محبت والا اور عادتیں تمیز و اخلاق سے لبریز ہوتیں۔ ہر مکی قریشی دیکھتا کہ روزانہ انکی تعریف کی لڑی میں اعلی اخلاق و کردار کے نئےدانے پروئے جاتے ۔ انکے پاس اپنی امانت رکھوانے کے بعد ہرکوئی سکون میں آ جاتا ۔
بے شک نبیﷺ کا باطن اور انکی روح انتہا سے پرے اور حدود سے لا تعلق حد تک شاندار تھی۔انکا ظاہری حسن و جمال تخیل سے ماورا حد تک حسین تھا۔ وہ رخ زمین پر آفتاب کو شرمسار کرتے پھرتے تھے۔انکے جمال کو حسن یوسف سے تشبیہ دینا سورج کو چراغ دکھانے کے مترادف ہے ۔ انسان کے بنائے ہوئے الفاظ نے ابھی تک اتنی جامعیت حاصل نہیں کی کہ انکے حسن و کردار کی ایک جھلک کا بھی حق ادا کر سکے ۔ آسمانی الفاظ مدثر ، مزمل ، شمس الضحی ،بدر الدجی، نور الہدی ، صدر العلی، سید المرسلین ، رحمتہ اللعالمین ، بشیر و نذیراور سراج منیر بھی محمدﷺکو بیان کرتے ہوئے تشنہ ہی رہتے ہیں ۔
تنہائی انسان میں تفکر کا مادہ پیدا کرتی ہے ۔ محمد ﷺ اکثر غار حرا میں تشریف لے جاتے اور وہاں سے بیت اللہ کا نظارہ کرتے۔ چالیس برس کی عمر میں جبرائیل امین ان پر پہلی وحی لے کر اترے ۔ اور اس عظیم ذات کے عظیم قران کی وہ آیتیں محمد ﷺ کے قلب اطہر پر نازل فرمائیں کہ اگرپہاڑ پر نازل کیں جاتیں تو وہ ریزہ ریزہ چورا چورا ہو جاتا ۔
اللہ نے لا ریب کامل دین کو دنیا میں پھیلانے اور مخلوق کا دربار الہی سے رابطہ جوڑنے کی زمہ داری محمد ﷺ پر ڈالی ۔ محمد ﷺ نے اپنے قریبی افراد کو دعوت اسلام دینے کے بعد عام اعلان نبوت فرمایا۔ کوہ صفا جو قریش مکہ کا مقام ِمنادی تھا، پر پہنچ کر سب کو پکارا۔ انہیں جمع کر کے ان کے سامنے اپنے آپ کو پیش کیا اور پوچھا کہ اے لوگو!!!
میں تمہارے ساتھ تمہارے درمیان رہا ہوں تم نے مجھے کیسا پایا؟
یہ لمحہ، مصطفوی جدوجہد کامرکزی نقطہ ثقل اور نازک ترین لمحہ تھا۔وہ قریشی اور عربی بدو کہ غیبت جن کا مشغلہ ہوا کرتا تھا،اگر اس لمحے ان میں سے کوئی شخص بھی محمد ﷺ کی چالیس سالہ زندگی میں ایک بھی غلطی ، کمی ،کوتاہی ، کجی ، دل آزاری ، بے ادبی ، بد اخلاقی یا فحش گوئی کا بتا سکتا تا تو یہ تحریک اپنی شان کھو دیتی ۔ اس مجمعے میں موجود ہر شخص نے بہت تخیل کے گھوڑے دوڑائے ، بہت سوچا ، بہت اپنے مغز ریشوں کو حرکت دی ، بہت اپنے ماضی کو ٹٹولا لیکن کوئی بھی محمد ﷺ کی چالیس سالہ زندگی میں ایک بھی عیب نہ ڈھونڈ پایا۔ محمد ﷺ کے اس سوال نے سب پر خاموشی طاری کر دی پھر محمد ﷺ نے اپنی صداقت کی گواہی پر تصدیق کے بعد انکے سامنے سچے دین کو پیش کیا۔ بڑی مدت سے فضائیں لا الہ الا اللہ کو سننے کے لئے تشنہ تھیں ۔ ہوائیں تو سیراب ہوئیں لیکن کچھ بد بخت دل ابھی بھی ایمان و ہدایت کے لئے مقفل تھے ۔ ابھی اللہ نے اپنے محبوب کو یہ قفل کھولنے کی ساری کنجیاں عطا نہ کی تھیں، ابھی تو قران کی چند ہی آیات اتری تھیں۔ آگے بہت سے انقلابات چشم فلک نے دیکھنے تھے۔
اس اعلان نبوت نے قریش مکہ کے رویوں کو یکسر بدل دیا۔ جن بوڑھوں کے کندھوں کا بوجھ محمد ﷺ اٹھاتے اب رسالت مآبﷺ کو ایذا رسانی ان ہی بوڑھوں کا ہدف ٹھرا ۔جو لب نبی ﷺ کو صادق وامین کہتے وہی اب دشنام طرازی پر اتر آئے۔ جو نگاہیں نبیﷺ کے احترام میں جھکتی تھیں اب وہی گھورنے لگیں تھیں۔ جن زبانوں پرپہلے تعریفیں تھیں وہی اب نوک خنجز بنی ہوئی تھیں۔ محمد ﷺکے استقلال کی سب سے بڑی آزمائش ان کی بیٹیاں تھیں جن کا نکاح اعلان نبوت کے بعد مشرکین نے منسوخ کر دیا تھا ۔اس پُر آزمائش دور میں جانثار دوست ابو بکر صدیقؓ ، چچا ابو طالب اور اہلیہ خدیجؓہ نے انکا بھرپور ساتھ دیا۔
چچا اور اہلیہ کی وفات کے بعد انکی پریشانیوں میں اضافہ ہوا اور قریش کی طرف سے سختیاں مزید بڑھ گئیں ۔ غرضیکہ نبوت کے بارہ سال بڑی کسمپرسی کی حالت میں گزرے۔ اسلام کی دعوت روکنے کا ہر حربہ آزمایا، واقعہ معراج پر مذاق اڑایا، شعب ابی طالب کے دو سال میں شقاوت قلبی کی نمائش جاری رکھی، ایذارسانی کی ، قریش اتنے احمق تھے کہ سلطان السلاطین کو سرداری کا لالچ دیتے ، بلال کے آقا کو مال کا لالچ دیتے، حوروں کی بشارت دینے والے کو عورتوں کا لالچ دیتے۔نہ وہ عمدہ اخلاق سے راہ راست پہ آئے ، نہ ہی چاند کو دو ٹکڑے ہوتے دیکھ کر انکی عقل جاگی ۔ہجرت پر مجبور کیا گیا طائف کے شہر میں لہو لہان ہو کر بھی خلق عظیم امت کے لئے ہدایت کی دعا مانگتے رہے۔اور کیا ہی نبیﷺ تھے جو اپنے پیروں پر جما خون صاف کرتے ہوئے بھی ہدایت کی دعا دیتے۔کیا ہی نبی تھے کہ جن سے مجنون کے الفاظ سنتے، انہی کی امانتیں رکھنا قبول کرتے۔ محمد ﷺکے کیا ہی ساتھی تھے جو خود پر ہر سختی برداشت کرتے اور نبیﷺ کو ایک کانٹا بھی لگتا تو مضطرب ہو جاتے ۔ ہر طرف سے، ہر قیمت پر کثرت قلت کو مٹانے کی طالب تھی ۔ نور خدا کفر کی حرکتوں پر خندہ زن تھا جو پھونکوں سے سراج منیر کو بجھانے کا خواہاں تھا۔ جیسے جیسے نبیﷺ کی محفل میں بلالوں ، فاروقوں ، ابوزروں اور ابودجانہ جیسے جانثاروں کا اضافہ ہوتا جاتا ویسے ویسے کفار مکہ کی ناک سے نکلتے دھویں میں بھی اضافہ نظر آتا۔ عرصہ حیات تنگ ہوا تو نبیﷺ نے ہجرت کے لئے رخت سفر باندھا اور مدینہ کی طرف رات کے اندھیرے میں چل نکلے ۔
خاتم النبیین ﷺ نے صدیق ؓ کو رفیق بنایا ۔ اور علی ؓ کو امین بنایا ۔ ہجرت کے سفر کے دوران بھی راہگزر پار کرتے ہوئے محمد ﷺنے انعام کی لالچ میں نکلے ہوئے سراقہ بن جعشم کو کسری کے کنگن عنایت کئے۔ سراقہ نے آخر تک اسے مزاق ہی سمجھا کہ بے سروسامانی کے عالم میں خوف کے مارے رات کو سفر کرنے والے محمد ﷺانکو عالمی طاقت کے کنگن کا مالک کیسے گردانتے ہیں ۔بعد میں وقت نے اسے سچ ثابت کر دیا اور کسری کے کنگن اسی کے حوالے کئے گئے۔
مدینہ میں پہنچ کر محمد ﷺ نے مواخات یعنی بھائی چارے کے نام سے نئی مثال قائم کی۔ نبی ﷺنے رشتہ جوڑنا سکھایا۔آپ ﷺ نے بھائی ہونے کے نئے پیمانے وضع کئے۔ یہ بھائی چارا" لا الہ "کی بنیاد پر بنا۔
انہوں نے جانوروں ، غلاموں اور ماتحتوں کے حقوق بتائے۔ انہوں نے خواتین کو پیر کی جوتی سے اٹھا کر عفت و عظمت کا استعارہ بنایا۔ گری پڑی انسانیت ، جو درہم و دینار سے زیادہ اہمیت نہیں رکھتی تھی، محمد ﷺ نے حقیقی معنوں میں اسے اس قابل بنایا کہ اشرف المخلوقت کا لفظ اس پر جچ سکا۔
انہوں نے یتیموں پر شفقت کرنا، بیواوں کی مدد کرنا، بے کسوں کی داد رسی کرنا، بیوی کو عزت دینا، اولاد کو محبت دینا ، انسان کی تربیت کرنااور آہ گرم و سرد کو پہچان لینا سکھلایا۔انسان کو مقام انسانیت تک لانا ہی انکی شریعت کا اصل ہوا۔اولاد آدم پر احسان نبوی جاری تھے کہ زمانے کے فرعونوں نے طبل جنگ بجانے پر آمادگی ظاہر کی۔مشرکین مکہ اپنی افرادی طاقت اور اسلحے کی فراوانی پر اتراتے ہوئے میدان بدر میں اترے ۔ ادھر رسول اللہ خاصہ بشریت یعنی صحابہ کی جماعت کو لے کر حق و باطل کی پہلی بالمشافہ جنگ میں پہنچے ۔ جنگ کیا تھی اک بے جوڑ مقابلہ تھا۔ ایک ہزارمرے ہوؤں کے مقابل تین سو تیرہ زندہ صحابہ تھے۔بازوؤں کی کی قوت اور تیر و نشتر کی نمائش سے کاروان حق کب تھما تھا۔بھائی بھائی کے سامنے تھا، چچا بھتیجا سامنے تھے ، ماموں بھانجا سامنےتھے۔ دوست یار عزیز سب سامنے ہو کر بھی اجنبی تھے۔نہ ہی ماضی کی دوستی آڑے آئی نہ ہی شِیر مادر کیونکہ صحابہ کے رشتوں ناطوں بندھنوں اور تمام تعلقات کی بنیاد" لا الہ الا اللہ" پر تھی ۔
نتیجہ جنگ کا یہ نکلا کہ قریش مکہ کا غرور و تکبر ان کے چوٹی کے سرداروں کی آنکھوں سے خون بن کر بہا اور بدر کی زمیں میں جذب ہو گیا۔
معاز و معوز کہ جن سے انکے والد نے ابھی تک فصل نہیں کٹوائی تھی وہ حب نبیﷺمیں قریشی سرداروں کے سر کاٹ رہے تھے ۔
نبی کے حکم پر صحابہؓ نے بدر کے قیدیوں سے عجیب انتقام یہ لیا کہ بغیر کسی جبر کے فقط اخلاق کی تلوار سے ان کے اندر کا شیطان مار ڈالا۔محمد ﷺ نے یہاں قیدیوں کے حقوق اور تعلیم کی ضرورت دونوں بتلا دیں۔ احد کے میدان میں پھر حق و باطل نبرد آزما ہوئے ۔ حق پھر بھی قائم رہا، نہ کمزور ہوا، نہ جھکا، نہ جھجھکا ۔ مجاہد نبیﷺ خود تیر کھینچتے ، تلوار چلاتے۔ اور مجاہد نبیﷺ کے مجاہد صحابہ ؓ انکی طرف آنے والے ہر تیر کو اپنے سینے پر اعزاز سمجھ کر سجاتے اور جہاد فی سبیل اللہ کی نئی جہتیں سمجھاتے اور نئی حدیں اپنے خون سے متعین کرتے۔ احد کے بعد کئی لشکر (احزاب) مدینہ پر چڑھ آئے۔خندق کے اندر مدینہ شہر کا دفاع کرتے ہوئے بیک وقت اندرونی اور بیرونی لشکر سے جنگ کرتے ہوئے ابن خلیل اللہ ﷺ اور صحابہؓ نے استقلال کی روشن مثال قائم کی ۔ اللہ کے نبی غازی رہے اور لشکر کفار پھر پسپا ہوا۔حب محمد ﷺاور شوق شہادت میں صحابہ نے خیبر کے قلعوں کے دروازے اکھاڑ دیئے۔جو لکڑی ممبر بننے کے قابل نہیں ہوتی اسے سولی بنا دیا جاتا ۔ نبیﷺ کے معجزات ساتھ ساتھ نظر آتے۔ ماضی میں جس لعاب سے زم زم کا چشمہ ابل پڑاتھا اسی لعاب سے چشم علی ؓ شفا پا گئی۔کبھی ماضی میں نبیﷺ کے ہاتھ لگنے سے بکری کے تھنوں میں دودھ آ گیا تو کبھی انکی انگلیوں کے چھونے سے ایک پیالہ پانی تمام لشکر کو کافی ہو گیا۔پھر وہ دن بھی آیا کہ جب محمد ﷺمکہ میں فاتح کی حیثیت سے داخل ہوئے ۔ قریش مکہ کے چہروں پر خوف امڈ آیا۔ مارے خوف کے خون یوں خشک ہوا گویا کاٹو تو خون نہ نکلے۔ والدین بچوں کو یوں دیکھتے گویا آخری بار ہی دیکھنا ہے ۔ کہیں کونے میں بیٹھا بوڑھا کئی سال پیچھے پہنچا اپنے ظلم یاد کر رہا تھا۔ بلالؓ کو تپتی ریت پر لٹا کر کمر پر پتھر کن لوگوں نے رکھے ؟ سمیہؓ کے ساتھ کیا ہوا ؟ نبیﷺ کو پتھر کس نے مارے؟مجنون کس نے کہا؟ بیت اللہ میں نبی ﷺ کی کمر پر اوجھڑی کس نے ڈالی؟
ابھی قریشی انہی یادوں کو تازہ کر رہے تھے اور اپنی موت کا ، اپنے گھروں کے جلائے جانے کا، اپنے بچوں کے زبح ہونے کا اور اپنی لاشوں کے مثلہ ہونے کا انتظار کر رہے تھے کہ انکی خاموشی کو ساقی کوثرﷺ کے ایک اعلان نے توڑا۔ سارے مکے میں منادی کرا دی گئی کہ آج عام معافی کا دن ہے۔
محمد ﷺنے کیا کیا معاف کر دیا؟ ماضی کے تمام ظلم و ستم معاف۔جبر معاف۔ شعب ابی طالب معاف۔ دشنام طرازی معاف۔احد میں حمزہؓ کا خون معاف۔ نبی کے دندان مبارک شہید کرنا معاف۔ احزاب میں یہودیوں کے ساتھ کیا گٹھ جوڑ معاف غرض سب کچھ معاف۔شافع محشر ﷺ نے امت کو اپنے شفاعت کرنے کا ایک نمونہ ،محبت کی صورت میں دنیا میں ہی دکھا دیا۔
ایک بار پھر حق غالب آ یا اور باطل مٹا ۔ بے شک باطل ہے ہی مٹ جانے والا۔
اللہ اکبر کی صدا بلند ہوتی اور بیت اللہ سے مخلوق خداوندوں کے پیکر خاک میں خاک ہوتے جاتے۔بیت اللہ نے اذان بلالیؓ سے اپنی فضا کو معطر پایا ۔نبی ﷺ کے قدموں سے اپنے در و دیوار منور پائے۔ صحابہؓ کے طواف سے اپنی عظمت رفتہ واپس بحال دیکھی۔ قریش مکہ جوق در جوق آتے جاتے اور پیمانہ ایمان، بدست سرور کائنات ﷺ لے کر مشرف بہ اسلام ہوتے فتح مکہ کے بعد دین اسلام تیزی سے پھیلنے لگا ، پہلے حج کے موقع پر ایک لاکھ پچیس ہزار افراد نے نبی کی معیت میں حج ادا کیا یہ نبیﷺ کی تیئس سالہ محنت کا پھل تھا ۔ دین اسلام رب کی مہربانیوں کا مظہر ، نبی کی محنت اور شہیدوں کے خون کی امانت ہے ۔ آخری حج کے موقع پر نبیﷺ نے خطبے میں دین کا خلاصہ پیش کیا۔ تمام انسانوں کو آدمؑ کی اولاد اور برابر حقوق و فرائض والا بتایا ۔ آپ ﷺ نے جاہلیت کےبنائے ہوئے اعلی و ادنی کے معیار ختم کر کے مساوات کا درس دیا۔رنگ و نسب کے غبار کو مرغ حرم کی بلندی میں حائل رکاوٹ بتلایا۔انہوں نے انسانیت کو" لا الہ کی دعوت دے کر" خاک سے اٹھایا ، "طبل جنگ سے" جسم انسانی پر لگی خاک کو جھاڑا، "کردار سازی کر کے "اسکو کھڑا کیا اور "ایمان کے جوہر سے" اسے اوج ثریا پر پہنچایا ۔
انہوں نے اپنی ذات پر دوسری بار گواہی تمام صحابہ سے گواہی لی کہ کیا دین ان تک پہنچا دیا گیا۔ صحابہ نے جواب دیا آپﷺ نے پہنچا دیا اور حق ادا کر دیا۔
نبی ﷺ نے اپنا مقصد رسالت پورا کر دیا ۔ اور اس جہان فانی کو چھوڑ کر جہان ابدی کی طرف کوچ فرمایا۔
یہ انکی تربیت کا ہی شہکار تھا کہ ان عربیوں کو ، جو زمین کے ایک ٹکڑے پر صدیوں جھگڑتے تھے ، انہیں عالمگیریت کے درجے پر پہنچایا ۔ بکرو تغلب کے قبیلوں جیسی لڑائیاں لڑنے والوں کو روم و فارس کی حکومت ملی ۔ جب یونان کا دیا ٹمٹمارہا تھا تو دنیائے علم کے چراغ انہی صحرا نشین امیوں نے اپنی شمعوں سے جلائے ۔وہ جو خاکی فرش اور لاجوردی شامیانے کے حامل ہو کر بھی فخر جہاں تھے۔
محمد۔۔انہی کے سر لولاک کا تاج ہے ، انہی کو فقط فخر معراج ہے ،وہی جو ایک کمان کے فاصلے تک پہنچے ، وہی کہ دنیا میں امت کی فکر میں اپنی دونوں شمعیں جوئے خون سے فروزاں کئے رہتے، وہی جو یوم قیامت یارب امتی، یارب امتی پکاریں گے ۔ان پر لاکھوں کروڑوں درود و سلام کہ جن کے ہاتھوں میں جام کوثر ہو گا، کہ جن کے پاس جنت کی کنجی ہو گی ، کہ جو مقام محمود پر فائز ہونگے ، کہ جوشفاعت کے لئے اپنی اور تمام انبیا کی امتوں کا واحد سہارا ہونگے، کہ جنکے ہاتھ اسلام کا جھنڈا ہو گا۔ ۔
الغرض ۔ انکی شریعت کا حکم مانع ہے ورنہ وہ بہت کچھ ہیں۔چھتیس الفاظ کے ساتھ آقائے دو جہاں کی عظمت بیان کرپانا خام خیالی نہیں تو اور کیا ہے۔۔
اللہ رب العزت سے دعا ہے کہ ہمیں اپنے نبی کے صدقے ویسا بنا دیں جیسا ہمارے نبی ہمیں دیکھنا پسند کریں۔ اور بے شک ہمارے نبی کی پسند کسی صورت کم نہ ہو گی ۔
آمین۔

ثاقب الرحمن کراچی ۔ 
فیس بک 8اکتوبر تا 11 اکتوبر چلنے والے عالمی مضمون نگاری بہ عنوان "سیرت النبی" کے لئے لکھا گیا مضمون۔