Tuesday, September 01, 2015

تم کون!!!!!
تم نظر رکھنے والے ۔۔۔تم پرکھنے والے ۔۔تم فیصلہ صادر کرنے والے ۔۔تم میزان تھامے ہوئے میرے منہ سے نکلتے الفاظ کو تولنے والے ۔۔۔
تم میرے قدموں کی سیدھ کو ورنیئر کلیپر لے کر جانچنے والے ۔۔۔
ہاں تم ہی تو تھے!!!!
جب میری انگلیاں ستار پر رقص کر رہیں تھیں اور تاروں پر مضراب سے دھنیں پیدا ہو رہیں تھیں تو تم آنکھوں کو آدھا بند کئے محظوظ ہو رہے تھے
تم اس میٹھی موسیقی کی بہتی لہروں پر تیرتے رہتے اور بہت مسرور ہو کر چند پل کے لئے ڈوب بھی جاتے
تم بولے کچھ نہیں لیکن تمہاری زات کا زرہ زرہ" واہ۔۔ واہ" کرتا رہا ، تمہاری انگلیاں ہر بدلتی دھن کے ساتھ رانوں پر شرمندہ شرمندہ ضربیں لگاتیں۔
پھر !!!!
پھر تمہاری آنکھیں مجھے دیکھنے کو بیتاب ہوئیں ۔۔ تمہارے دل میں ملاقات کی آرزو نے جنم لیا اور تمہارے شوق کی گہرائی نے اس آرزو کی پرورش کی ۔
پھر وہ گھڑی بھی آئی !!!!!!
تم نے ہمت پکڑی اور کچھ تمہاری قسمت نے تمہارا ساتھ دیا اور تم نے نظر اٹھا کر مجھے دیکھا ۔۔۔
لیکن یہ کیا!!!!!
تم نے تو میرے چہرے پر داڑھی دیکھ لی ۔۔ اس کے بعد تمہاری فکر کا دوسرا دور شروع ہوا
تمہیں لگا کہ میں نے ستار چھو کر ظلم عظیم کیا ہے ، تم نے یہ بھی کہا کہ تمہیں مجھ سے یہ امید نہ تھی
میں نے یہ بھی تم سے سنا کہ میرا حلیہ میرے ہنر سے میل نہیں کھاتا ۔۔ نہ جانے کیوں چند ساعتوں میں تمہاری نظر مجھے گنہگار کر گئی ۔
سر پر ٹوپی رکھ کر کلاسیقی موسیقی کی دھنوں کو اپنا شوق بنانے کا اتنا بڑا انعام مجھے تم سے ملا ۔
تمہیں جھٹکا لگا جب میں نے یہ بتایا کہ میں رقص کا شیدائی ہوں ۔
رقص کا شیدائی !!!!
اسی رقص کا جس میں گھومنا ، پھر رکنا ، بیٹھنا ، پھر بازو پھیلا کر سمیٹ لینا ، آنچل لہرا کر اپنے تن سے لپیٹ لینا پھر ناز و ادا سے کھڑے ہو کر گھوم جانا ہوتا ہے
جب پیروں میں پائل ہوتی ہے کھنک کھنک کھن ۔۔ جب آنکھوں میں کاجل ہوتا ہے پتلی سلائی اور سلیقہ سے سے لگا غلاف کعبہ حیسا کالا کاجل ۔۔
تھوڑی پر تل ہوتا ہے کچھ ابھرا ہوا اور سبز رنگ کا مصنوعی تل ۔۔
اور جب ماتھے کا جھومر پہلے تو مانگ پر بیٹھا ہو اور دوران رقص گھومتے وقت بائیں جانب سرک جائے ۔۔
زرا سمجھاو تو سہی !!!!!!
تم نے کیوں مجھے فریم میں بند تصویر سمجھا ۔۔ کیوں تم نے مجھے پاک ہی سہی، لیکن شیشے میں بند ہونٹ کو ہونٹ سے جوڑے مدام آنکھیں کھولے ایک ہی نقطے کو دیکتے ہوئے مجسمے کی طرح سمجھا .
اور جب تم نے مجھے حقیقی دنیا میں ایسا پایا کہ میرے لباس پر کہیں کہیں دھول مٹی کے نشان ، میری کمر پسینے سے تر اور میرا ایک جوتا کیچڑ سے گندا تھا تو تم نے مجھے بد زوقی کا طعنہ دیا ۔۔
تمہارا گمان مجھ پر موسیقار کا تھا لیکن میری پیشانی پر کالا نشان تمہیں منافقت کا دھبہ لگا
جاو میاں جاو۔۔۔۔مجھے نیک نہ سمجھو ۔۔۔۔ کہ نیک بننا گنہگار ہونے اور منافق ہونے کا طعنہ سننے کے سوا کچھ نہیں ۔
میں نفسیاتی مریض ہونے سے زیادہ" پکا گنہگار" رہنا پسند کروں گا۔
یہ سنتے جانا !!!!
جب تمہیں موقع ملے ۔۔ جب کبھی فراغت کے چند لمحات نصیب ہوں، جب دل فکر پر مائل ہو تو سوچنا ۔
ہاں تم سوچنا کہ حسن پرست فطرت کا خالق پھولوں میں رنگ کیوں بھرتا ہے ۔
خوش بو پسندی کاشوق سرشت میں رکھنے والا رب گلاب و چنبیلی کو معطر کیوں بناتا ہے رات کی رانی کیوں اس کے امر سے اتنی پر کشش ہو جاتی ہے کہ انسان کے قدم خود بخود اسکی طرف بڑھنے لگتے ہیں ۔
کیوں وہ خوش آوازی کے رسیا کو صبح سویرے پرندوں کے نغمے سناتا ہے ، کیوں جھرنوں سے بہتے پانی میں اور سمندر کے ساحل پر موجوں میں "لے" پیدا کرتا ہے ۔۔
تم کبھی سوچنا ۔۔۔ شائد تمہیں اندازہ ہو جائے کہ میں گنہگار نہیں ۔۔۔ بس مجبور ہوں ۔۔۔ 

No comments: