Saturday, July 30, 2016

مکتوب بنام خلیل سیفی صاحب
 22جولائی 2016۔ 
مکرمی!
دانائی زرق برق لباس کی محتاج نہیں ہوتی نہ ہی شملے و دستاریں فہم و فراست کا سرٹیفکیٹ ہو سکتے ہیں۔ وہ پیر مرد جس کو دنیا مولائے روم کہتی ہے اور جسے عشق و مستی اور دانائی و تفکر کا استعارہ سمجھا جاتا ہے انہیں یہ مقام اس شخص نے دیا جو بظاہر چرواہا نظر آتا تھا۔ 
شمس تبریز کی درویش نظر کا اعجاز تھا جو مفتی جلال الدین بلخی، مولانا روم بنے۔ کچھ تو وجہ تھی جو رومی نے قلم چھوڑ کر قدم پر چلنا شروع کیا۔ قلم نے مولانا کو عبدیت کا راستہ تو دکھایا لیکن "اس" کی یاد میں مستغرق ہونے کا چسکا نہ دے سکی ۔ علامہ اقبال صاحب کیا خوب کہہ گئے ۔۔ ع
تو سمجھتا نہیں اے زاہد ناداں اس کو
رشک صد سجدہ ہے اک لغزش مستانۂ دل

سرمد کی داستان مشہور ہے کہ جب مغل بادشاہ اورنگزیب عالمگیر اس کی جان لینے کے درپے ہوا تو سرمد کو بھرے دربار میں بلا کر کلمہ پڑھنے کو کہا گیا۔ وہاں سب جانتے تھے کہ سرمد کلمہ صرف "لا الہ " تک ہی پڑھتا ہے ۔ دربار میں موجود علماء کے بار بار اصرار پر بھی ان کے منہ سے صرف "لا الہ " نکلا۔ علماء جب شور مچانے لگے اور کافر کافر ملحد ملحد کی آوازیں آنے لگیں تو سرمد یوں گویا ہوئے  
 "ابھی میں نفی ہی سمجھنے کی کوشش کر رہا ہوں 'لا ' سے آگے بڑھوں گا تو شاید 'الا اللہ' ہاتھ آئے"۔

پھر قتل کے فتوے لگے اور زندانوں کے دہانے کھلے ۔ اک جگہ یہ بھی پڑھا ہے کہ جب جلاد تلوار سونت کر رسیوں میں جکڑے سرمد کے قریب آنے لگا تو سرمد نے فرمایا "آ جا ، تیرا ہی انتظار تھا آ جا، تم جس صورت میں جس شکل میں بھی آنے لگو میں تمہیں پہچان لیتا ہوں"۔

 سرمد کی داستانیں ہوں یا منصور کا انالحق ہو، ہر رنگ میں یہ ملنگ لوگ پراثرارہوتے ہیں۔ ان کے قریب جا کر پتا چلتا ہے کہ آزاد منش کیا ہوتا ہے ۔ ان کی صحبت انسان کو حقیقی معنوں میں حق آشنا کر دیتی ہے پھر قلب انسانی دوعالم سے بیگانہ ہوا پھرتا ہے۔ ایسے افراد کی بعض باتیں بہت عجیب لگتی ہیں کبھی کبھی بیوقوفانہ اور مضحکہ خیز بھی لگتی ہیں لیکن گہرائی میں کوئی نہ کوئی دانشمندی ضرور چھپی ہوتی ہے۔ بقول علامہ صاحب ۔۔ع 
مرد خدا کا عمل عشق سے صاحب فروغ
عشق ہے اصل حیات موت ہے اس پر حرام

 اک واقعہ یاد آتا ہے جب فدوی ایک ایسے ہی درویش سے سر راہگزر ملا۔ 
وہ گنگنا رہا تھا "میں مسرور ہوں میں مخمور ہوں ، میں مسرور ہوں میں مخمور ہوں" ۔ چلتے ہوئے یہی الفاظ بار بار دہرا رہا تھا ۔میں نے اسے چھیڑنے کی غرض سے اس سے مکالمہ شروع کیا۔

  پوچھا سرور کیا ہے؟  
فرمایا کہ یہ چڑھتا نشہ ہے
 پوچھا کہ کب حاصل ہوتا ہے؟
  فرمایا کہ جب شوق اپنی منزل پانے لگے تب حاصل ہوتا ہے 
  پوچھا شوق کی منزل کہاں ہے؟
  فرمایا خواہش کی تکمیل کی سرحد پر۔
 پوچھا کہ اس سرحد کے پار کیا ہے؟  
فرمایا خواہش کے پہاڑ پر چڑھنا سرور جبکہ وہاں سے دھیمے اور بوجھل قدموں اترنا خمار کہلاتا ہے۔ 
پوچھا کیا خمار بھی مسرور کرتا ہے؟  
فرمایا نہیں۔ سرور مسرور کرتا ہے اور خمار مخمور کرتا ہے۔


جب اس بندہ آزاد سے پوچھا کہ کوئی مثال دیجئے تو کہنے لگا:
"تھر کے صحراؤں میں سدا دھوپ کی تمازت سے جھلسنے والے خرقہ پوش جب میدانوں میں اترتے ہیں اور سبز چمن میں کھڑے ہو کر بارش کا نظارہ دیکھتے ہیں تو اپنی ایک دیرینہ "خواہش" کی تکمیل کے لئے مینہ میں بھیگنے نکلتے ہیں، اوپر آسمان سے بادل جل تھل کرتا ہے نیچے مرد صحرائی سرمستی کے عالم میں سرور کی چوٹی سر کرنے میں مصروف ہوتے ہیں۔
"تھر کے صحراؤں میں سدا دھوپ کی تمازت سے جھلسنے والے خرقہ پوش جب میدانوں میں اترتے ہیں اور سبز چمن میں کھڑے ہو کر بارش کا نظارہ دیکھتے ہیں تو اپنی ایک دیرینہ "خواہش" کی تکمیل کے لئے مینہ میں بھیگنے نکلتے ہیں، اوپر آسمان سے بادل جل تھل کرتا ہے نیچے مرد صحرائی سرمستی کے عالم میں سرور کی چوٹی سر کرنے میں مصروف ہوتے ہیں۔
اے بالک سنو۔۔ اس بارش کے پہلے قطرے سے مکمل بھیگنے تک کا عرصہ "مسرور" کرتا ہے۔ اور جب بارش تھم چکے اور بھیگے بدن سے پانی ٹپ ٹپ گرنے لگے تو یہ انہیں "مخمور" کئے ہوئے ہوتا ہے۔ "

خود انصاف کیجئے کہ میں اس وقت درویش کی بدن بولی اور اس کے لباس کثیف پر نظر کرتا یا اس کی لب کشائی کے دوران بکھرتے گلاب سمیٹتا؟ علیم صبا نویدی صاحب نے کیا خوب کہا ہے ۔۔ ع
میں اندھیرا تھا تو پس منظر میں پھر
ضو فشاں، اندر یہ منظر کون تھا

دیکھیں خلیل صاحب !!! وہ لوگ جو بظاہر کچھ نظر نہیں آتے اندر سے آتش فشاں ہو سکتے ہیں ، وہ درویش جو عیش وعشرت سے بیگانہ معلوم ہوتا تھا وہ مسرور و مخمور کی سدا لگاتے ہوئے لمحہ لمحہ مزے میں تھا ، پل پل اس کا وجود تھیا تھیا کر رہا تھا ۔ اس لئے کسی شخص کی زبان کھلنے تک اور پھر اس کے کھل کر سامنے آ جانے تک کسی کے بارے میں فیصلہ دینا حماقت ہوتی ہے ۔ آپ دارالعلوم میں پڑھتے ہیں اور آپ کے ہاں علم کا ایک مخصوص یونیفارم ہوتا ہے ۔ایک مخصوص طریق اور ایک سدھرا اور سلجھا ہوا مزاج ہوتا ہے ،آپ میں ایک بات دیکھی کہ آپ کسی باہر والے کو کم علم تو سہی لیکن کم فہم نہیں سمجتے، اور میرے نزدیک یہی آپ کی سب سے بڑی خوبی ہے ۔ جب تک وقت چاہے گا ہم ساتھ رہیں گے اور جب وقت درمیان میں فاصلے ڈال دے گا اور مصروفیات و سرحدات کی دیواریں حائل کر دے گا تب یادوں پر اکتفا کر لیا کریں گے۔ دعا ہے کہ آپ جہاں رہیں خوش رہیں اور سدا مسکراتے رہیں ۔

No comments: